انڈیا میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے زیادہ کیوں ہے جبکہ ہماری زمین زرخیزی میں انڈیا کی زمینوں سے کسی صورت کم نہیں؟ پاکستانی زراعت کے وہ مسائل جو بہت کم لوگ جانتے ہیں – PAKISTAN PRESS

انڈیا میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے زیادہ کیوں ہے …جبکہ ہماری زمین زرخیزی میں انڈیا کی زمینوں سے کسی

 

لاہور(ویب ڈیسک)میرا یہ کالم عام طور پر بین الاقوامی امور کے بارے میں ہوتا ہے لیکن منہ کا ذائقہ بدلنا بھی اچھا ہوتا ہے اور یہ امر بدیہی ہے کہ اقوامِ عالم میں بات اُن ملکوں کی سُنی جاتی ہے جو اقتصادی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر مستحکم ہوں۔……

ویسے زراعت کی بھی کچھ سُدھ بُدھ اس طرح سے ہے کہ نامور کالم نگار جاوید حفیظ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔!!!کئی نسلوں سے ہمارا خاندان زراعت سے جُڑا ہوا ہے۔ اب بھی گاؤں کبھی کبھار جانا ہوتا ہے …..

اور رشتہ دار کسانوں سے ان کے مسئلے مسائل پر بات ہوتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے میں نے فوڈ سکیورٹی کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا اُس کالم کا محرک بھی ایک اخباری خبر تھی کہ پچھلے سال پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کاغذائی مواد درآمد کیا اور اس میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی گندم بھی تھی۔……

میرے لیے یہ خبر بالکل اچھی نہیں تھی۔ دیہات میں اگر کوئی شخص جسمانی یا مالی طور پر خاصا کمزور ہو جائے تو کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے دانے ختم ہو گئے ہیں۔ مجھے پہلی نظر میں یوں لگا کہ پاکستان کے دانے ختم ہو رہے ہیں‘ لیکن حقیقت یوں تھی کہ کچھ گندم پاکستان ایکسپورٹ بھی کر چکا تھا اور یہ بھی بذاتِ خود ایک لطیفہ تھا

اور اس بات کی دلیل تھا کہ ہماری بیورو کریسی زمینی حقیقتوں سے دور ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ مغربی جانب دو تین ممالک میں نان پاکستانی آٹے سے بنتے ہیں ‘گویا سمگلنگ بڑی مقدار میں ہوتی ہے۔جب سے گندم کی بوائی شروع ہوئی ہے تو کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کی خبریں آنے لگیں …….

اور یہ تادم تحریر جاری ہیں کیونکہ گندم کی فصل کو آج کل یوریا کھاد کی اشد ضرورت ہے اور یہ کھاد کھلے عام بلیک ہو رہی ہے۔ میری معلومات کسانوں سے ڈائریکٹ بات چیت پر منحصر ہیں۔ چلیں کھاد کی دلچسپ باتیں بعد میں سناؤں گا فی الحال بات ہو جائے زمیندار کے سب سے بڑے مسئلے کی اور وہ ہے پانی کا مسئلہ۔ 1950ء میں ہر پاکستانی کو پانچ ہزار مکعب فٹ سالانہ پانی دستیاب تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ رہ گیا ہے ۔اس کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے……….

۔ ہمارے ہاں پچپن سے ساٹھ فیصد لوگوں کی روزی روٹی زراعت سے منسلک ہے‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی رونقیں بھی زرعی شعبے سے جڑی ہوئی ہیں۔پاکستان میں آبپاشی زیادہ تر اب بھی روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اب Drip Irrigation اور Pivot Irrigation استعمال ہوتی ہیں۔ ڈرپ سسٹم میں پانی پلاسٹک کی باریک نالیوں میں سے قطرہ قطرہ پودوں کی جڑوں میں گرتا ہے جبکہ Pivot سسٹم میں فواروں کے ذریعے اچھے خاصے رقبے کو چند منٹوں میں سیراب کر دیا جاتا ہے۔

اس میں پانی کم از کم آدھا بچ جاتا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے میں نے ایک پروگریسو فارمر سے پوچھا کہ یہ سسٹم اگر اتنا اچھا ہے تو ملک میں عام کیوں نہیں ہوا۔ جو اب ملا کہ حکومت اس سلسلے میں یکسو نہیں۔ Pivot Irrigationکے چند پائلٹ پراجیکٹ لگائے گئے ہیں مگر بڑے شہروں کے آس پاس اور وہ بھی ایسے اضلاع میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔نہر کے آخری حصے کو ٹیل( Tail)کہا جاتا ہے۔ ٹیل والے حصے میں پانی کا بہاؤ کمزور بھی ہو سکتا ہے اور مقدار میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ پانی چوری کی وبا بھی موجود ہے۔ نہر سے

زرعی زمین کو پانی لیجانے کے لیے پکے موہگے بنائے جاتے ہیں جو کہ محکمہ آبپاشی کی پیمائش کے مطابق ہوتے ہیں۔ پانی چور ان موہگوں کو محکمہ کے اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے یا خود ہی بڑا کر لیتے ہیں۔ اگر حکومت جرمانہ کرے تو عدالتوں سے سٹے لے آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ٹیل والوں کو پانی اور بھی کم ملتا ہے۔ میں یہ تلخ حقیقت ذاتی تجربے کی بنا پر بتا رہا ہوں کیونکہ ہمارا گاؤں ٹیل پر ہے۔ رحیم یار خان کے ضلعے میں L3اور اپرنواں کوٹی کی چھوٹی نہریں اکثر پانی سے خالی رہتی ہیں۔ہماری زراعت کا دوسرا مسئلہ کھاد کی بروقت عدم دستیابی ہے۔ اس مرتبہ گندم کی بوائی کے وقت DAPغائب تھی‘ چلیں یہ کھاد تو 40فیصد ہی ملک میں بنتی ہے ہمارے ملک میں بننے والی یوریا بھی مارکیٹ میں شارٹ ہے

اور مہنگے داموں مل رہی ہے۔ یہ دونوں کھادیں گندم کی فصل کے لیے لازمی ہیں۔ سنا ہے ہماری یوریا سنٹرل ایشیا تک سمگل ہوتی ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے اونچی قیمت پر بیچی جاتی ہے مگر کسان کو رسید کنٹرول پرائس والی دی جاتی ہے۔ چھوٹے رقبے والا غریب کسان مہنگی کھاد افورڈ ہی نہیں کر سکتا ہے اور ہمارے اکثر کسان چھوٹی ہولڈنگ والے ہیں۔زرعی ریسرچ کے فوائد اور ماڈرن مشینری پروگریسو فارمر کو بھی نہیں مل پاتے‘ گندم اور گنے کی کاشت کے نئے طریقے نکل آئے ہیں۔ گندم کے لیے ساڑھے تین فٹ چوڑے اور بہت لمبے بیڈ بنائے جاتے ہیں۔ ان کے اوپر گندم بوئی جاتی ہے۔

دونوں جانب پانی کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے آدھا پانی بچ سکتا ہے اور پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے مگر بیڈ اور نالیاں بنانے والی مشینری کسانوں کو نہیں مل رہی۔ ہماری زراعت کا چوتھا بڑا مسئلہ حکومت کی چھوٹے کسان سے بے اعتنائی ہے۔ یہ وہ کسان ہے جو ایک دو ایکڑ کا مالک ہوتا ہے۔ اُس میں نہ ٹریکٹر خریدنے کی سکت ہوتی ہے نہ ٹیوب ویل لگوانے کی۔ ویسے بھی کسانوں کے لیے بجلی ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھا کر ساڑھے سات روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے۔ چھوٹا کسان بُری طرح پس گیا ہے۔ سنا ہے کہ انڈیا کے صوبہ راجستھان میں کسانوں کو بجلی مفت ملتی ہے۔ ہمارے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اس کا شعار ہے ”ایک ایکڑ ایک فیملی‘‘۔ یہ چھوٹے کسانوں کو خود کفالت سکھاتے ہیں۔ ایک ایکڑ والا فارمر اگر فصل کاشت نہیں کر سکتا تو پولٹری فارم تو بنا سکتا ہے۔ فش فارمنگ کے لیے تالاب بھی بنا سکتا ہے۔ کنو‘ مالٹے اور لیموں کے پودوں کی نرسری بنا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی زراعت کو بچانا ہے تو پہلے چھوٹے کسان کو بچانا ہو گا۔ہماری زراعت کا ایک اور مسئلہ فصلوں کا چناؤ ہے

۔ گنا پورے سال کی فصل ہے جو بہت پانی مانگتی ہے۔ ہمارے ہاں سفید چینی کا استعمال خطرناک حد تک زیادہ ہے اور سفید چینی عمومی طور پر صحت کے لیے مضر ہے۔ شوگر مافیا کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ گنا زیادہ کاشت کریں۔ کماد اور گندم کی بوائی کا موسم آس پاس ہے ہماری نیشنل فوڈ سکیورٹی کے لیے گندم یقینا زیادہ اہم ہے۔ چینی کے بغیر چائے پی جا سکتی ہے۔ مٹھائی کھائے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے لیکن روٹی‘ نان کے بغیر زندگی دشوار ہے۔ جنوبی پنجاب میں کماد نے نہ صرف گندم اور کپاس کا رقبہ کم کیا ہے بلکہ یہ دونوں فصلیں گنے کے کھیتوں سے پیدا ہونے والی رطوبت سے بھی متاثر ہوئی ہیں یہ رطوبت فصل دشمن کیڑوں کو جنم دیتی ہے۔پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کو زراعت میں لایا جائے اور یہ غلط سوچ ہے۔ اس سے چھوٹا کسان ختم ہو جائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ برازیل ماڈل کا غور سے مطالعہ کریں جہاں وزارتِ زراعت کے دو حصے کر کے ایک حصہ کو صرف چھوٹے کسانوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔

READ MORE……

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں