ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے ، لیکن کیسے ؟

ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا معاملہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے ، لیکن کیسے ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔قلم کی کمان میں الفاظ کے تیر کس قدر طاقتور ہیں اس کا اندازہ پہلے بھی تھا اور اب بھی۔ لفظ کی حرمت کا تقاضا پہلے بھی تھا اور اب بھی۔ حرف پر آنچ نہ آئے

یہ احساس پہلے بھی تھا اور اب بھی۔ اقتدار کے ایوانوں میں موجود ارباب اختیار قلم کو قید نہ پہلے کر سکے ہیں اور نہ اب کر سکیں گے۔گذشتہ ہفتے کے کالم میں کیا تھا کہ بھونچال آ گیا۔ اور پھر اُسی بھونچال میں جس قدر حوصلہ ملا اس سے یہ یقین بھی پختہ ہوا کہ دلیل اب بھی حاوی اور سُرخرو ہے۔ سوال کی طاقت سے جو بھی انکاری ہوا وہ دلیل کی راہ سے بھٹک گیا۔سُقراط صرف سوال پوچھتا اور اس کی طاقت سے دانائی کی راہیں کھول دیتا۔ ’سلونی سلونی‘ کی صدا جواب کے لیے بے تاب ہوتی کیونکہ کہنے والا باب العلم بھی تھا اور حاکم وقت بھی۔۔۔ کہیں سوال پوچھنے کا شوق تو کہیں جواب ڈھونڈنے سے عشق کہ سوال نے ہمیشہ جھوٹ کا چہرہ بے نقاب کیا جبکہ سچ لازوال ٹھہرا۔سوال کبھی۔۔۔پینے پر قانع تو جواب خود کو علم کی عدالت میں گواہ بنانے پر نازاں۔گذشتہ ہفتے کے کالم میں حقیر نے فقط حالات حاضرہ کو موضوع بنایا تاہم اختلاف کی گنجائش کو ختم کرنے والے اور معاشرے کو محبوس بنانے والے یہ سوچ کہاں رکھتے ہیں کہ اختلاف جمہوریت کا حُسن اور تنقید صحافیوں کا اصل کام ہے۔ وہ کام جو ہم سے پہلے کئی ایک نے انجام دیا۔تازیانے کھانے والے ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، پابندیاں برداشت کرنے والے آئی اے رحمٰن، منہاج برنا، نثار عثمانی یا رضیہ بھٹی جیسی نڈر ایڈیٹر اور کئی ایک مرد قلندر اس کی مثال ہیں۔بلوچستان کے صحافی ہوں یا وزیرستان کے، کراچی ہو یا لاہور، سر پھرے قلم کاروں، صحافیوں کی ایک فوج ہے جن کا ہتھیار آج بھی قلم اور جن کی آواز آزادی اظہار ہے۔اختلاف کے قبیلے کا اصل روپ آمریتوں

یا جمہوریت نما آمریتوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے خاص کر کے ان ادوار میں جو فاشزم پر مبنی ہوں، جس میں اظہار کے ہر طریقے پر پابندیاں ہوں۔ ڈرامے کے سکرپٹ سے لے کر صحافی کے قلم تک، شاعر کے استعاروں سے نثر نگار کی تحریر تک، تنقید نگار کی کاٹ سے طنز نگار کی تشریح تک، سب معتوب ٹھہرائے جائیں، اور بند آنکھوں، بہرے کانوں اور گنگ آوازوں والا معاشرہ تخلیق کرنے کی کوشش کی جائے۔ایسے معاشرے کو پاکستان کے صحافیوں اور اہل دانش نے نہ پہلے تسلیم کیا اور نہ ہی اب کریں گے۔جھوٹ کے بازار میں ارزاں نرخوں پر قلم خریدنے والے اہل اقتدار سر اونچا رکھنے والے باغیوں کو محض الزام اور بہتان سے مرعوب کیسے کر سکتے ہیں؟ سچ صلیب تو بخش سکتا ہے مگر بے موت نہیں جاتا۔ قلم کی حرمت کا اندازہ محض دیہاڑی دار نہ تو لگا سکتے ہیں اور نہ ہی سچ کو پا بستہ حالات بنا سکتے ہیں۔وطن عزیز حقیقت میں نازک دور سے گُزر رہا ہے، معیشت، سیاست اور صحافت ارتقا کے مرحلے سے پہلے ہی التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ بھوک اور افلاس میں اضافہ اور اوپر سے ایک صفحے کا ایک صفحے پر نہ ہونا بے چینی بڑھا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکشن کا مسئلہ کل بھی موجود تھا اور اب بھی وہیں کھڑا ہے۔سوال گذشتہ ہفتے بھی یہی تھا اور اس ہفتے بھی یہی ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو اس معمولی معاملے کو اس قدر طُول دے رہی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کس ’فضائی معاہدے‘ کے قریب پہنچ چکا ہے حالانکہ ہم ’ابسلیوٹلی ناٹ‘ کا اعلان کر چکے ہیں۔ سوال اب بھی وہیں ہیں کہ ذاتی پسند ناپسند اداروں کی جگہ افراد اور شخصیات کو ترجیح کیوں دے رہی ہے؟ملک معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہو چکا ہے، فوج ہو یا الیکشن کمیشن یا میڈیا اداروں سے محاذ آرائی محض افراتفری کو جنم دے رہی ہے۔ عوام کے مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس آئین کی صورت موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں انا سے نہیں آئین سے رہنمائی لیتی ہیں اور اب کی بار آئین ہی سرخرو ہو گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں