پاکستان کی ٹاپ ہیروئنز اور ماڈلز کا ایک روز دبئی جانا اور راتوں رات مالا مال ہو کر درہم کھنکھناتی اگلے روز واپس آ جانا ۔۔یہ کیا قصہ ہے ؟ معتبر شخصیت نے سب بتا دیا – The Pakistan Time

پاکستان کی ٹاپ ہیروئنز اور ماڈلز کا ایک روز دبئی جانا….. اور راتوں رات مالا مال ہو کر درہم کھنکھناتی اگلے روز واپس آ جانا ۔۔یہ کیا قصہ ہے.. ؟ معتبر شخصیت نے سب بتا دیا –

پاکستان کی ٹاپ ہیروئنز اور ماڈلز کا ایک روز دبئی جانا اور راتوں رات مالا مال ہو کر درہم کھنکھناتی اگلے روز واپس آ جانا ۔۔۔۔یہ کیا قصہ ہے—– ؟ معتبر شخصیت نے سب بتا دیا

ہم ریت میں اگے ہوئے اس شہر کی جانب پرواز کرتے جاتے تھے جسے عرف عام میں دوبئی کہا جاتا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے اس شہر کی جانب چلے جاتے تھے ——-جو اب بھی بہت سے لوگوں کے ،خوابوں کا شہر ہے۔ محنت مزدوری کے خواہش مندوں کا‘ سیاست دانوں کا نامور کالم نگار مستنصر

حسین تارڑ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔جنہوں نے یہاں شاہانہ گولڈن گھر تعمیر کر رکھے ہیں تاکہ جب بھی برا وقت نازل ہو جائے تو وہ یہاں نزول فرما جائیں اور بیان دیں کہ دیکھئے ہم نے پاکستان کی سلامتی اور وقار کے لئے ملک بدری قبول کی ہے

اور اس بیان کے بعد وہاں پلازوں اور فیکٹریوں کی تعمیر میں مشغول ہو جائیں۔ ڈکٹیٹر حضرات بھی دوبئی میں ہی پڑے رہتے ہیں اور کہتے ہیں—– کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ ایک زمانے میں ٹیلی ویژن سے ایک مقبول عام سیریل’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ کے نام سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا جس میں رپورٹر امجد کا مرکزی کردار
میں ادا کیا کرتا تھا اور نثار قادری ’’ماچس ہے آپ کے پاس‘‘ اور ’’ارے بھئی امجد کیوں کنفیوژ کرتے ہو‘‘ ایسے فقرے مخبوط الحواس ہو کر ادا کرتا تھا اور بہت داد وصول کرتا تھا۔ اسی سیریز میں عارف وقار نے ایک شاہکار ڈرامہ ’’دوبئی چلو‘‘ نام کا پرڈیوس کیا

جس میں علی اعجاز نے ایک معصوم دیہاتی نوجوان کا کردار ادا کیا جو سب کچھ دائو پر لگا کر دوبئی کی جنت میں جانے کے لالچ میں لٹ جاتا ہے۔ بعد میں اسی نام سے فلم بنائی گئی اور علی اعجاز ایسا سپر سٹار ہوا……… کہ ایک مدت تک پردہ سکرین پر ہر نوعیت کی فربہ ہیروئنوں کے ساتھ تقریباً رقص کرتا رہا۔

اس نے بے پناہ دولت کمائی اور پھر لُٹائی۔ ان زمانوں میں یہ رواج عام تھا کہ فلموں کی کوئی ایکٹرس یا کوئی ٹاپ ماڈل دوبئی جاتی تھی اور راتوں رات مالا مال ہو کر درہم کھنکھناتی اگلے روز واپس آ جاتی تھی اور یوں ہمارے زرمبادلہ میں دن دونی اور ظاہر ہے رات کو چوگنی ترقی ہوتی جاتی تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ عزت مآب خواتین دراصل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھیں اور وہ اپنا تن من وغیرہ نثار کر کے دھن لے آتی تھیں۔ لیکن ان دنوں تو الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔ ماڈل خواتین پاکستان سے ڈالروں سے مالا مال ہو کر دوبئی جاتی ہیں اور مجال ہے کوئی پوچھ سکے…… کہ بی بی یہ جو الگ باندھ کے مال رکھا ہے یہ کیا ہے‘ کہاں سے آیا ہے اور کدھر جا رہا ہے

اور اگر کوئی پوچھ لے اور پھر غائب ہو جائے تو اس کا نام گمشدہ افراد کی فہرست میں تلاش کیجیے اور یہ ماڈل خواتین دوبئی کے پھیرے کے پھیرے لگاتی ہیں اور وہاں جا کر جو مال الگ باندھ کے رکھا ہوتا ہے اسے کھول دیتی ہیں اور اس مال سے ہی تو پلازے اور فیکٹریاں تعمیر ہوتے ہیں۔

READ ALSO……

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں