لاہور: (ویب ڈیسک) تنویر زمان خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” گزشتہ ہفتے کے کالم میں ہم نے ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کے اسباب اور وجوہات کا مختصراً جائزہ لیا تھا,,,,

، میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہم آئندہ کالم میں سلطنت عثمانیہ کے موجودہ سعودی عرب اور وہاں پر موجود مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی قانونی حیثیت پر بھی بات چیت کریں گے یعنی سلطنت عثمانیہ کے1299ء سے لے کر1922ء تک وجود میں رہتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور باالخصوص سعودی عرب کی کیا حیثیت تھی۔

اب جنگ عظیم اوّل میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر یورپی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدہ لاسین کے 100 سال پورے ہونے پر ترکی کیا ممکنہ ردعمل کرسکتا ہے، آیاوہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت عثمانیہ کی بحالی کی کوشش کرے گا …

جس میں سوا600 سال بادشاہت قائم رہی یا ان1922ء سے پہلے تک جو حقوق اور وسائل پر کنٹرول حاصل تھا انہیں بذریعہ طاقت واپس لینے کی کوشش کرے گا یا پھر عالمی عدالت میں قانونی جنگ کا آغاز ہوگا اور اگر باالفرض عالمی عدالت سے ترکی کے حق میں فیصلہ ہو بھی جاتا ہے

تو پھر اس فیصلے پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی کیا حیثیت ہوگی، کیا مسلمانوں کے ان مقامات مقدسہ کو مشترکہ مسلمانوں کی ملکیت بنانے پر غور شروع ہوگا، سلطنت عثمانیہ پر مجموعی طور پر36سلاطین یا بادشاہ رہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی کبھی حج یا عمرہ ادا نہیں کیا,,,,

، موجودہ سعودی عرب23ستمبر1932ء کو حجاز اور تحف کو ملاکرkingdom of saudiaبنا لیکن سلطنت عثمانیہ جس کا مرکز ترکی میں تھا۔ قسطنطینہ اس کا دارالخلاقہ تھا جو اب نئے ترکی میں استنبول کہلاتا ہے، اس کا کنٹرول مکہ اور مدینہ پر بھی تھا اور حجاج ان کی اجازت سے مکہ اور مدینہ میں داخل ہوتے تھے…….

۔ سلطنت عثمانیہ اپنے زمانے کی سب سے بڑی فوجی، اقتصادی اور تجارتی طاقت رہی ہے جس کے اسلحے کو زیر اثر ممالک سے بہت برتری حاصل تھی، ان کا اثر ایشیا، جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک جا پہنچا تھا، انہوں نے علم نجوم اور تعمیرات میں بڑے کارنامے سرانجام دئیے، سولہویں صدی ان کا نقطہ عروج تھا،,,,,

اس کے بعد آہستہ آہستہ روبہ زوال ہوتی گئی جس کی مورخ یہ وجہ بتاتے ہیں کہ مغرب صنعتی انقلاب کی وجہ سے جدید معاشرے کی بنیادیں رکھ رہا تھا، جمہوریت جڑیں پکڑ رہی تھی۔ صنعت کے ساتھ منسلک تجارت تیزی سے فروغ پا رہی تھی لیکن دوسری طرف سلطنت عثمانیہ نے نہ تو خود کو جدید تقاضوں سے اور صنعتی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا

اور نہ ہی اپنی زرعی اور قبائلی بنیاد کو ترک کیا، جس وجہ سے سلطنت کی معیشت برطانیہ، فرانس اور روس کے ساتھ مقابلہ کرنے کی قابل نہ رہی جہاں صنعتی انقلاب نے دولت کے ڈھیر لگا دئیے تھے صنعتی انقلاب نے اسلحے کی پیداوار میں بھی بہت اضافہ کردیا، زرعی معیشت کا صنعتی معیشت سے مقابلہ ممکن ہوگیا اور زرعی معیشت مقروض ہونا شروع ہوگئی

اور بالآخر یورپی توپ و تفنگ کا مقابلہ نہ کرسکی اور اس کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا، اس وقت ترکی کے زیر اثر بلغاریہ، مصر، یونان، ہنگری، اردن، لبنان، اسرائیل، رومانیہ، شام، عرب کے کچھ علاقے اور شمالی افریقہ کے کچھ ساحل تھے جو آج مقتدر ممالک ہیں جو مختلف اداوار میں اس سلطنت کے کنٹرول سے نکلتے رہے لیکن جو ممالک سلطنت عثمانیہ کے اثر سے نکلے وہاں جمہوری روایت پوری طرح یا دوسرے لفظوں میں مغرب کی طرح بڑھ نہ سکی،

آج اگر ترکی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اردن واپس مل جائے یا وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ سب ترکی کو واپس مل جائے جو 100 سال پہلے1922ء تک ترکی کے کنٹرول میں تھا، ایسا سرحدی پھیلائو کا دعویٰٰ یا ایسا سوچنا ترکی کو بہت مہنگا بھی پڑ سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقامات پر اگر دعویٰ کرے گا تو اسے ایک طرف تو مسلم دنیا کی حمایت ملنا بہت مشکل ہے، دوسرا یہ کہ اتنی بڑی جنگی طرز کی کشیدگی کو قابو میں رکھنا ترکی کے بس کی بات نہیں

، اس لیے ترکی کو فوری طور پر معاہدہ لاسین1922ء ختم ہونے کے بعد صرف اپنا تیل اور معدنیات کی دریافت اور پیداوار بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ ترکی کی معیشت جسے صدر اردگان عارضی بحران کہتے ہیں، ایسا کرنے کی کوشش کرنا بھی اس وقت ترکی کے بحران میں طوالت کا سبب بنے گا اور ترکی میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ سکتی ہے۔ اس لیے ترکی کے لیے توسیع پسندانہ سوچ اس کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے ترکی کو اپنےnostalgiaسے باہر آجانا چاہیے۔

READ MORE ARTICLES….