لاہور(ویب ڈیسک) جسٹس کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے۔ ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اکتا کر ایک دن بھانجے سے کہا، ” تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔….( اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر انگریز وائسراے جاری کرتے تھے )

تو لاٹ صاحب کے نام چھٹی لکھ دے اور میں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں۔ ” تو لاٹ صاحب کے نام چھٹی لکھ دے اور میں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں۔ ” وائس راے نے پوچھا: نام، بولے، ” کھڑک سنگھ ” تعلیم بولے ، کیوں سرکار ؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لے آیا ہوں….

۔ وائس راے ہنستے بولے: سردار جی۔! قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے، آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے، اچھوں کو چھوڑنا ہے بروں کو سزا دینی ہے۔ کھڑک سنگھ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے، سرکار اتنی سی بات کے لئے گدھا وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے۔؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائت میں کرتا آیا ہوں,,,

اور ایک نظر میں اچھے برے کی تمیز کر لیتا ہوں۔ وائس راے نے یہ سوچ کر کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آے۔ خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آگیا۔….

ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا ڈوپٹہ گلے میں لٹکاے کھڑی آنسوں پونچھ رہی ہے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا، جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، مائی لارڈ۔! یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے۔

کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر کی بات پوری بھی نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا۔؟ عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیان والا کئی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی,,,

اور ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئ تم نے بندہ مار دیا۔؟ نہ جی نہ میرے ہاتھ میں بیلچہ تھا کئی نہیں، ایک ملزم بولا۔ دوسرا ملزم بولا: جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا، ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔ جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا۔! پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا,,,,,

، نہ زخمی کرنا تھا، تیسرا ملزم بولا۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کاغذوں کا پلندہ اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سنیں۔ میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گے تھے۔ ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں اس کے مرے باپ سے، ان کے ہاتھوں میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں، وہ تو کماد سے توڑے ہوے گنے تھے۔

جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس آفیسر کو بلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے۔؟ سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس آفیسر نے بتایا۔ یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو انکی طرف سے بات کرتا ہے، کھڑک سنگھ سنگھ نے وکیل سے کہا ادھر کھڑے هو جاو قاتلوں کے ساتھ۔ اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے۔جسٹس کھڑکھ سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں انکا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جاے۔پٹیالے میں تھرتھلی مچ گیی، اوے بچو، کھڑک سنگھ آگیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔کہتے ہیں کہ جب تک کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوا۔!

READ MORE…….