عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کی قبر کی تیاری میں 12 گھنٹے کیوں لگے؟ تدفین کے موقع پر کیا ہوا تھا جو لوگ آج تک بھول نہ سکے؟ – PAKISTAN PRESS

عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کی قبر کی تیاری میں 12 گھنٹے کیوں لگے…؟ تدفین کے موقع پر کیا ہوا تھا— جو لوگ آج تک بھول نہ سکے؟ –

 

لاہور(نیوز ڈیسک ) پاکستانی مشہور شخصیات سے متعلق ہر کوئی جاننا چاہتا ہے—–، ویسے تو ان شخصیات کے بارے میں لوگ جانتے ہیں مگر کچھ شخصیات کے قبر کشائی اور آخری رسومات نے سب کی توجہ حاصل کی۔ اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔بے نظیر بھٹو کا شمار پاکستان کی مشہور سیاسی شخصیات میں

ہوتا تھا وہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہلی وزیر اعظم کے طور پر بھی مشہور تھیں۔ بے نظیر اپنے جرات مندانہ شخصیت کی وجہ سے پاکستانی عوام میں کافی مقبول تھیں۔موہنجوداڑو ایئرپورٹ سے بینظیر بھٹو کی میت لاڑکانہ میں ’نوڈیرو ہاؤس‘ پہنچی تو موقع پر موجود سینکڑوں کارکن زار و قطار رونے لگے۔

ان میں سے کئی نے سینہ کوبی شروع کر دی۔بے نظیر بھٹو کی میت جب ہسپتال سے باہر لائی گئی تو سینکڑوں کی تعداد میں غصے سے بھرے پیپلز پارٹی کے کارکن دھاڑے مار مار کر رو رہے تھے۔ ہسپتال کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو جب ہسپتال لایا گیا تو وہ دم توڑ چکی تھیں۔ پروفیسر مصدق خان نے کہا

کہ انہیں اوپن ہارٹ مساج کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔2007 میں ان کی شہادت پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں افسوس کیا جا رہا تھا۔ بینظیر کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اور مقامی روایات کے مطابق ان کی قبر پر مٹی ڈال کر اسے پاؤں سے دبایا۔

بعد میں بلاول نے اپنی ماں کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔بے نظیر کی قبر والد کے برابر ہی میں بنائی گئی تھی۔ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کے حقیقی ہیرو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے آپ کو ملک کے لیے وقف کر دیا تھا، اسرائیلی ایجنسی موساد انہیں قتل کرانے کے در پر تھی، اسی طرح ان پر عالمی دباؤ بھی

شدید تھا، امریکہ کی جانب سے نیوکلئیر فارمولہ چوری کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا مگر ثابت نہ کر سکا۔ڈاکٹر عبد القدیر خان آخری وقت تک پاکستان کی بقاء اور اس ملک کی سنوارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ محسن پاکستان گزشتہ سال کرونا میں مبتلا ہو کر جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے، ان کی قبر سیکٹر ایچ 8 اسلام آباد میں موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خواہش تھی کہ انہیں فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا جائے۔

فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد قبر تیار ہونے میں 12 گھنٹے لگ گئے تھے، یہ 12 گھنٹے بھی ایک ایسی وجہ سے گے جو کہ عوام کے غم و غصہ اور دباؤ کی بنا پر تھے۔ دراصل فاطمہ جناح کی خواہش تھی کہ انہیں قائدا اعظم محمد علی جناح کے برابر میں دفنایا جائے مگر بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی کے، حکومت انہیں میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی۔مرزا اصفہانی نے اس اقدام کی مخالفت بھی کی اور اس خطرہ سے بھی آگاہ کیا کہ اگر محترمہ کو قائداعظم کے برابر میں نہ دفنایا گیا

تو خراب صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ عوام میں اس وقت ایک ایسی جذباتی کیفیت تھی— جو کہ انہیں محترمہ کے خلاف کسی بھی اقدام پر بھڑکا سکتی تھی۔کیونکہ اس وقت محترمہ فاطمہ جناح عوام میں مقبولیت حاصل کر چکی تھیں۔ اس حوالے سے کمشنر کراچی نے فاطمہ جناح کے خاندانی افراد اور قائداعظم کے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، اسی طرح حکومت سے بھی اس حوالے سے رابطہ کیا گیا۔ اور پھر رات گئے حکومت کی جانب سے محترمہ فاطمہ

جناح کو قائد اعظم کے برابر میں دفنانے کا فیصلہ کیا گیا۔فاطمہ جناح کی قبر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار سے ایک سو بیس فُٹ دور بنائی گئی۔ قبر کی لمبائی چھ فُٹ جبکہ چوڑائی تین فُٹ تھی۔ چونکہ زمین پتھریلی تھی اور باآسانی کھودنا مشکل تھا، اسی لیے بجلی سے چلنے والے آلات کا استعمال کیا گیا تھا۔ محترمہ کی قبر کشائی کے لیے بیس گورکنوں نے حصہ لیا تھا، جس کی قیادت 60 سالہ عبدالغنی کر رہے تھے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان کی قبر کشائی بھی کی تھی۔چونکہ زمین پتھریلی تھی یہی وجہ تھی کہ قبر کو تیار کرنے میں 12 گھنٹے لگ گئے تھے۔عبدالستار ایدھی پاکستان کے ان چند شخصیات میں شامل تھے جنہیں عالمی پزیرائی اور عزت ملی،

ان کی انسانیت کے لیے گراں قدر خدمات پر انہیں نیشنل اور انٹر نیشنل ایوارڈز بھی دیے گئے۔ایدھی صاحب نے اپنے سفر کی شروعات اپنی اہلیہ کے ساتھ کی تھی جب ان کے پاس صرف ایک ایمبولینس ہوا کرتی تھی اور پھر ایک وقت تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلانے کا اعزاز ایدھی فاؤنڈیشن کے سر رہا۔عبدالستار ایدھی کی خواہش تھی کہ میرے رخصت ہونے کے بعد میرے جسم کے اعضاء عطیہ کر دیے جائیں۔ لیکن ان کی آنکھوں کے سوا کوئی بھی جسمانی اعضاء اس حالت میں نہیں تھے کہ عطیہ کیے جا سکیں۔عبدالستار ایدھی نے 25 سال پہلے ہی اپنی قبر تیار کروا لی تھی۔ ان کی قبر ایدھی ولیج میں واقع ہے، جہاں وہ سپرد خاک ہیں۔ ان کی وصیت کے مطابق اس تیار قبر میں بھی انہیں دفنانا تھا، ان کی قبر مکمل طور پر تیار تھی، جسے سلیب سے ڈھکا ہوا تھا۔

CLICK MORE ………

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں