عزیز دوستو ! حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ۔عالم ِ اسلام کی ایک نہایت معتبر اور علمی شخصیت گُزری ہیں ۔ آپ 737 عیسویٰ “مرو” کے شہر میں پیدا ہوئے ۔…

آُ کا شمار امام ابو حنیفہ کے مشہور ترین شاگردوں میں ہوا کرتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک حج پر روانہ ہوئے اور حج ادا کیا ۔ حج سے فراغت کے بعد ایک دن آپ بیت اللہ شریف میں ہی سو گئے ….

۔ یہاں خواب میں آ پ کو دو فرشتے نظر آئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے ۔ایک فرشتے نے دوسرے فرشتے سے سوال کیا ۔ کہ اِس مرتبہ کتنے لوگوں نے حج کیا اور اِن میں سے کتنے لوگوں کا حج قبول ہو ا۔ اب دوسرے فرشتے نے جواب میں کہا ۔

کہ اِس سال چھ لاکھ لوگوں نے فریضہ حج ادا کیا ۔لیکن کسی ایک فرد کا بھی حج قبول نہ ہوا ۔ تھوڑی دیر خاموش ہونے کے بعد وہ فرشتہ پھر سے بولا ۔ اور اُس نے کہا کہ ۔ ہاں البتہ دمشق شہر کے ایک موچی کے علاوہ اللہ پاک نے اِس کا حج قبول فرمایا

اور اِس کے طفیل دوسرے تمام مسلمانوں کا حج بھی قبول فرما لیا ۔حضرت عبداللہ بن مبارک جب نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ میں اللہ کے اِس بندے سے ضرور ملوں گا ۔ کہ جس کے طفیل اللہ پاک نے تمام مسلمانوں کا حج قبول کیا ۔ آُ نے سامان ِ سفر باندھا اور دمشق کیلئے روانہ ہوئے ….

۔ اُس دور کے سفر موجودہ دور کی طرح آسائش سے بھرپور نہیں ہوا کرتے تھے ۔بلکہ اُن دنوں سفر کرنا اور کسی انسان کو ڈھوڈنا۔ جوے شیر لانے کے مترادف تھا ۔لیکن حضرت عبداللہ بن مبارک کی لگن سچی تھی آپ نے بڑی محنت اور جد و جہد کے بعد آخر کار اِس موچی کو تلاش کر ہی لیا ۔

پھر آپ نے اِس موچی کو اپنے یہاں آنے کا مقصد بتایا ۔خواب میں دیکھے گئے تمام واقعات اِس کے گوش گزار کئے گئے ۔ اور اِس سے دریافت کیا کہ تم مجھے اپنے حج کی روداد سناؤ۔ کہ تم نے دوران ِ حج آخر کیا ایسا عمل سر انجام دیا جو دوسرے مسلمانوں نے نہ کیا …

۔ اور اُس کے سبب تمہارا حج نہ صرف قبول ہوا بلکہ تمہارے ساتھ ساتھ باقی سب مسلمانوں کا حج بھی تمہارے طفیل قبول ہو گیا ۔ وہ موچی جو اب تک یہ تمام باتیں حیرانی سے سن رہا تھا ۔ اب گویا ہوا کہ محترم یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ کہ صرف میرا حج قبول ہوا ۔ چونکہ میں نے تو کبھی کوئی حج کیا ہی نہیں ۔..

اب دونوں اشخاص حیرانی اور پریشانی سے ایک دوسرے کو تھوڑی دیر دیکھتے رہے ۔پھر موچی نے اپنا قصہ بیان کرنا شروع کیا ۔ کہ بہت عرصے سے میرے دل میں حج کی تمنا ضرور تھی ۔میں نے کئی مرتبہ اِس کام کیلئے مطلوبہ رقم جمع بھی کی ۔ جو کہ مختلف فرائض کی نظر ہوگئی

۔حتیٰ کہ اپنے تمام فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد میں نے حج کا ارادہ کیا اور دن رات محنت کر کے تین سو درہم جمع کر پایا ۔ ایک مرتبہ رات گئے جب میں اپنے کام سے واپس گھر لوٹ رہا تھا تو مجھے ایک کچرا خانے پر دو خواتین نظر آئی ۔ جب میں قریب گیا تو ایک عجیب اور وحشت ناک منظر دیکھا ۔ کہ اِس کچرے خانے پر ایک گدھا مردار حالت میں پڑا تھا ۔ اور یہ دونوں خواتین اِس کے اوپر کا گوشت کاٹ رہی تھی ۔ میں نے اِنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔

کہ اے خواتین تم کون لوگ ہو ۔کیونکہ کسی بھی مردار کا گوشت کھانا اسلام میں تو دور بلکہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ۔ تو پھر تم لوگ اِس گوشت کا کیا کرو گے ؟میری اِس غیر متوقع آمد سے وہ خواتین گھبرا گئی تھیں ۔لیکن اِن میں سے ایک خاتون ہمت کرتے ہوئے بولی کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ۔ اور آپ ہی کے علاقے کے رہنے والے ہیں ۔پچھلے سات روز سے میں اور میرے اہل خانہ بھوکے ہیں ۔ اور آج اِس شدت بھوک سے بے حال ہو کر ہم یہ عمل کرنے پر مجبور ہوئے

۔ ہم یہ گوشت کاٹ کر لیجاتے اور اِسے کاٹ کر کھا لیتے ۔ کہ اِتنے میں آپ نے ہمیں دیکھ لیا ۔ اور یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی ۔ اِس عورت کی زبانی یہ واقعات سُن کر میں خوفِ خدا وندی سے لرز گیا ۔ میں اپنے گھر گیا اور وہ رقم جو میں نے حج کیلئے سنبھال کر رکھی تھی لا کر اِس خاتون کے حوالے کر دی ۔ اور اِسے ہدایت کی کہ اِس سے اپنے زریعہ معاش کا کوئی انتظام کر لو ۔ یہ رقم اِن خواتین کے حوالے کر کے مجھے ایسا دلی اطمینان حاصل ہوا کہ جیسے مجھے حج کی سعادت نصیب ہو گئی ہو

۔یہ واقع سُن کر حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ واقع ہی اُن فرشتوں نے میرے خواب میں سچ بات کہی تھی ۔ اور بے شک قدرو قذا کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اب ذرہ اپنی سو سائٹی کا حال ملاحظہ کیجئے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی شریف لوگ پائے جاتے ہیں ۔ جو ہر سال حج کی سعادت تو حاصل کرتے ہیں ۔لیکن اِس رقم کو حاصل کرنے کیلئے اپنے ملازموں کی عید اور بکرا عید تک کے بونس روک دیتے ہیں ۔ خدانخواستہ اِس بات سے ہمارا مقصود یہ نہیں کہ آپ حج یا عمرہ ہی نہ کریں ۔ لیکن آپ کا یہ عمل کسی کی حق تلفی کا باعث نہ بنے ۔اور بے شک قدر قذا کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

Read more….