افغانستان میں بچے کچھے امریکی فوجی کس خفیہ مشن پر کام کر رہے ہیں ؟

افغانستان میں بچے کچھے امریکی فوجی کس خفیہ مشن پر کام کر رہے ہیں—؟

لاہور (ویب ڈیسک) پاک فوج کے سابق افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں —-۔۔آج تالبان کابل میں داخل ہو گئے ہیں اور انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے—— کہ کوئی خوف کی وجہ سے ملک چھوڑ کر نہ جائے۔ البتہ جو غیر ملکی جانا چاہیں انہیں آزادی ہے

اور ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ان کی نئی سٹرٹیجی ان کے عزمِ نو کی غماز ہے۔وہ قندھار کے ملّا عمر کی قدامت شعاری اور شدت پسندی کو ایک نئی جہت دے چکے ہیں۔امریکہ نے اپنے 3000 اور برطانیہ نے 600 ٹروپس بھیجے ہیں کہ کابل میں موجود امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کی پوشیدہ اور خفیہ سٹیٹس کی فائلوں کو جہاں پاؤ، پھاڑ کر پھینک دو۔

وہ تمام ریکارڈ جس پر امریکہ کا لوگو نقش ہو اور جن کو پوشیدگی (Secrecy) کے لیبل سے آراستہ کیا ہوا پاؤ، اسے جلا دو۔ یعنی:جو پرزہ اسرارِ امریکہ نظر آئے، وہ جلا دو۔۔اس کے علاوہ وہ تمام الیکٹرانک سازو سامان جس میں خفیہ خط و کتابت کا اندراج ہو،اس کو بھی نذرِ آتش کر دو۔

اس سلسلے میں کابل میں امریکی سفارت خانے کو جو احکام دیئے گئے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ اس مواد کو فوراً تلف کر دو جو پراپیگنڈے میں استعمال کیا جا سکے۔حساس ریکارڈ کا یہ پلندہ اتنا بڑا ہے کہ اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے درجنوں اہلکار اور تلف کرنے والی مشینیں، کابل کے ہوائی اڈے پر اتر کر سفارت خانے میں جا چکی ہیں

اور دن رات مطلوبہ ریکارڈ کا مشاہدہ و مطالعہ ہو رہا ………..… اور سی این این (CNN) کی اطلاع تو یہ ہے کہ تالبان آنے والے 24گھنٹوں کے اندر اندر کابل کو محصور کر سکتے ہیں۔یعنی جب ایسا ہو گیا تو پھر سفارت خانوں میں کوئی عملہ نہ آ سکے گا اور نہ وہاں سے باہر جا سکے گا۔یہ تین ہزار فوجی لڑنے کے لئے نہیں،

اپنے ان ہم وطنوں کو بحفاظت ان تالبان کے چنگل سے بچانے کے لئے آئے ہیں
،جن کو 20سال تک ہزاروں لاکھوں لڑنے والے فوجیوں نے محفوظ و مامون بنا رکھا تھا۔مجھے1975ء کا وہ ویت نام یاد آ رہا ہے جس میں امریکی چنوک ہیلی کاپٹر اور دیوہیکل کارگو طیارے سائیگان (ہوچی من سٹی) میں اترتے تھے،

بچے کھچے امریکی مرد و زن کو ان طیاروں میں ”ٹھونستے“ تھے اور پرواز کر جاتے تھے۔ اب امریکی، کابل میں اپنے سفارت خانے کے عملے کے ساتھ اس سلوک کا ”پلے بیک“ دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔…… میرا اندازہ ہے کہ تالبان بھی ان کو کابل سے نکالنے کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں گے۔

اگر ایسا ہو گیا (اور توقع ہے کہ ایسا ہی ہو گا) تو تالبان کی نئی نسل کی سٹرٹیجک تبدیلی کا سراغ مل جائے گا۔ویسے اس سراغ کے کئی شواہد اور بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شمالی اور شمال مغربی سرحد پر واقع صوبوں کا کنٹرول سنبھالنے میں بے دریغ بدامنی سے گریز کیا ہے، ہرات کا صوبہ اور شہر ان کے قبضے میں آ چکا ہے،

وہاں کے گورنر(اسماعیل خاں) اپنی سفید لہراتی داڑھی کے ساتھ تالبان کے حصار میں ہنستے مسکراتے جاتے دیکھے جا سکتے ہیں،ہرات کے میڈیا سنٹر کو کنٹرول کرنے میں تالبان نے کسی جلد بازی یا شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور وہاں کی خواتین سٹافرز کو امان دے دی ہے۔

امریکہ نے اپنی ناکامی کی ندامت چھپانے کو اپنے ”نشانِ پا مدھم کرنے“ کا نام دے رکھا ہے۔امریکی ایڈوائزری کے الفاظ یہ ہیں:”ان سہولیات کو ضائع کر دیا جائے جو حساس مواد کی حامل ہوں،خواہ کاغذات ہوں یا الیکٹرانک سازو سامان… ساتھ ہی یہ دھیان بھی رکھا جائے

کہ جن پر امریکی لوگو،امریکی پرچم چھپا ہوا یا کندہ کیا ہوا ہو، ان کو بھی فوراً تلف کر دیا جائے!“… اس ”ہدایت نامہ ئ خاوند اور بیوی“ کے آخر میں یہ جملہ بھی لکھ دیا گیا ہے:”وزارتِ خارجہ کا یہ معمول ہے کہ جس جگہ امریکی نقوشِ پا کو مدھم دکھانا مقصود ہو، وہاں ایسی ہیSoPs سے کام لیا جاتا ہے۔“ اللہ اللہ خیر سلّا!

READ MORE…………….

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں