”کراچی میں حقیقتاً زمین شہریوں پر تنگ پڑ گئی ،“

”کراچی میں حقیقتاً زمین شہریوں پر تنگ پڑ گئی ،“

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد حنیف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔پہلے ہم ساحل سمندر پر سمندری ہوا کھانے جاتے تھے۔ اسی ہوا میں کبھی مچھلی کی بساند اور سمندر میں گرنے والے گٹر کے پانی کی بو ہوتی تھی,

لیکن ہوا ہی ہوتی تھی۔ اب ہم ساحل سمندر پرریت پھانکنے جاتے ہیں۔چند دن پہلے ایک چھوٹے بچے اور اس کی سائیکل کے ساتھ سی ویو گیا اسی ارادے کے ساتھ کہ بچہ بائسیکل چلائے گا،،،

اور ہم سمندری ہوائیں کھائیں گے لیکن اپنے آپ کو ریت کے طوفان میں پایا۔نہ کوئی آندھی تھی نہ کسی سمندری طوفان کا خطرہ تھا۔ معمولی سی ہوا تھی جو ساحل پر روز چلتی ہے۔ ۔۔۔

لیکن وہ ہوا اتنی ریت اڑا رہی تھی کہ ہر چند قدم چل کر پانی سے آنکھیں دھونا پڑتیں۔ جس ٹریک پر بائسیکل چلنی تھی وہ بھی صحرا کا منظر بنا ہوا تھا، ریت کی تہیں پھر ریت کی ڈھیریاں۔۔

۔ سمندر آہستہ آہستہ ساحل سے پیچھے ہٹتا رہا ہے۔ لیکن کبھی اتنا چڑھ آتا تھا کہ ریت گیلی کر جاتا تھا۔ اب سمندر کچھ ایسا روٹھا ہے کہ ساحل کی ہوا کو

منھ بھی نہیں لگاتا بس ریت اڑتی دیکھتا ہے اور تھوڑا اور دور کھسک جاتا ہے۔ہم عمر کے اس حصے کو پہنچ گئے ہیں جہاں ہر جملہ اس طرح شروع کر سکتے ہیں ہمارے زمانے میں۔۔

۔تو ہمارے زمانے میں ساحل پر ریت تھی، صحرا والی نہیں۔ ابھی چند سال پہلے تک ایک طرف شہر تھا اور ایک طرف سمندر۔ سی ویو کے ساحل پر (جو کہ عام شہریوں کے لیے واحد کھلا ساحل ہے کیونکہ ہاکس بے، فرینچ بیچ کے لیے گاڑی چاہیے،،

ہٹ بھی چائیے) تعمیرات کی اجازت نہیں تھی۔ اکا دکا ریستوران یا ڈھابے تھے لیکن شہری آبادی کوئی نہیں تھی۔سی ویو کی ساتھ والی سڑک پر چلتے ہوئے سمندر کے پانی کی پھوار آپ پر

پڑتی ہے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں جس سے میری مراد چار پانچ سال پہلے ہے، پتھر، بجری کے ڈھیر نمودار ہوئے، بلڈوزر چلنے شروع ہوئے، سمندر کو پسپا کرنے کا معرکہ شروع ہوا۔کوئی ہمارے وزیر اعظم جیسا وژنری تھا …

جس نے سوچا کہ یہ بحیرہ عرب یہاں پر ایسے ہیں پڑا ہوا ہے، اس میں مٹی ڈالو، پلاٹ کاٹو، فلیٹ بناؤ۔ سمندر بیچارا کیا کرتا آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتا گیا۔ جہاں پہلے سمندر تھا اب وہاں کراچی کے سب سے مہنگے پلاٹ اور فلیٹ ہیں۔۔۔۔۔

باقی سمندر پر آنے والی ریت عوام پھانکتے ہیں۔جب میں اور بچہ اس ریت کے طوفان میں پھنسے تھے تو کنٹونمنٹ کا عملہ اس ریت سے نمٹنے میں مصروف تھا۔ وہ مزدور جنھیں ساحل کی صفائی کے لیے رکھا گیا تھا اب بیلچے پکڑے ریت جمع کرتے اور پھر اسی ریت کو ایک ہاتھ گاڑی میں لے جا کر ایک بڑی ڈھیری پر ڈالتے۔ بیلچوں

سے بھی ریت اڑ رہی، ہاتھ گاڑی سے بھی اور ریت کی ڈھیری سے بھی۔پھر کنٹونمنٹ بورڈ کی ٹرالی آتی، ریت اسی پر لادی جاتی اور پھر یہ ٹرالی ساحل پر مزید ریت اڑاتی چل پڑتی۔ غالباً یہ ریت واپس سمندر پر تعمیرات کے لیے استعمال ہوگی۔۔۔۔۔

سمندر کو ہم نے پیچھے دھکیلا سمندر نے ہمیں ریت دی۔ ہم نے وہ ریت سمندر کو اور پیچھے دھکیلنے میں لگا دی۔ریت کی اسی معیشت میں بہت فائدے ہیں۔ ساحل پر ریت اکٹھی کرتے مزدوروں کو ٹھیکے دار کے کمیشن کے بعد مہینے کے آٹھ سے بارہ ہزار ملتے ہیں۔

اس ریت پر بننے والے سب سے چھوٹے فلیٹ کی قیمت کم از کم چھ کروڑ روپے ہے۔ منافع کی ایسی شرح دیکھ کر بحیرہ عرب یہاں سے نہ بھاگے تو کیا کرے۔میں سمندر اور ریت کا ماتم ایک بزرگ کے سامنے کر رہا تھا،،،، انھوں نے کہا جہاں اب آپ کا گھر ہے، ہمارے زمانے میں تو وہاں پر بھی سمندر ہوتا تھا۔

Read more….

 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں