چوروں کے دور میں ہر چیز سستی.. اور ایمانداروں کے دور میں شدید مہنگی ۔۔۔ –

چوروں کے دور میں ہر چیز سستی اور ایمانداروں کے دور میں شدید مہنگی ۔۔۔لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مشتاق سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔
خواب بکھر رہے ہیں.

۔ تبدیلی طعنہ بن رہی ہے۔ پوری اپوزیشن کو نا اہل قرار دے کر بھی خوش بختی اور خوش قسمتی قریب نہیں آرہی۔ ایمان سےلوگ بر ملا کہتے ہیںکہ چوروں کے دور میں ہر چیز سستی تھی ایک صاحب نے واٹس ایپ کیا ’’اڑے تھے ضد پہ کہ سورج بنا کے چھوڑیں گے,,,,

، پسینے چھوٹ گئے ایک دیا بنانے میں‘‘ سوچنا ہوگا کہ لوگ ایسا کیوں سوچنے لگے ہیں۔ سمجھنا ہوگا کہ 3 سال بعد ہی لوگ کیوں سمجھنے لگے ہیں کہ شاید ان سے
سمجھنے میں غلطی ہوگئی۔ ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘ لیکن احباب شکوہ کرنے لگے ہیں ,,

کہ کیا لانے والوں کو آنے والوں کی صلاحیتوں کا علم نہیں تھا؟ نہیں تھا تو اس کھیل کی ضرورت کیا تھی۔ علم تھا تو لائے کیوں؟ بلاول بھٹو کا اس مسئلہ پر خون جوش مارتا ہے کہا ایک پارٹی کو لانچ کیا گیا پھر اس کے جلسے بھرے گئے پارٹی چیئرمین ہیں سب کچھ کہہ سکتے ہیں عام آدمی کے تو پر جلتے ہیں کیا کہے گا اپنی ہی آگ میں جل بھن رہا ہے۔ مہنگائی سے فرصت ملے

تو سوچے فیس بک، واٹس ایپ پر درجنوں سوالات، ریمارکس، کسی جانب سے ٹھنڈی ہَوا کا جھونکا محسوس نہیں ہورہا بلکہ ’’وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘ کیا پانچ سال گزرنے پر تختیوں کی فہرستوں پر ووٹ حاصل کیے جائیں گے۔ 3 سالوں کا خلاصہ 6 لائنوں میں مکمل ’’پھر ملیں گے اگر چہ

ووٹ ملے اور خدا لایا‘ باتوں میں تضاد، سوچ پر دھند، دھند میں لپٹا ایک ہی چہرہ، لندن میں محلات۔ محل تو صرف بکنگھم پیلس ہے باقی فلیQٹ، اپنا نہ کوئی کاروبار نہ فیکٹری مگر اللہ کا دیا بہت کچھ بلکہ سب کچھ، مگر خوش قسمتی کوئی پوچھتا نہیں۔

READ  MORE………

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں