پاکستان کے اہم شہر میں اس کی وجہ کیوں پیش آئی ؟

پاکستان کے اہم شہر میں اس کی وجہ کیوں پیش آئی…. ؟

کوئٹہ (ویب ڈیسک) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع ہوشاپ میں بدامنی کے واقعہ میں جان بحق ہونے والے دو بچوں کے جنازے میں خواتین نے نہ صرف شرکت کی ——-بلکہ ان کے تابوتوں کو کندھا بھی دیا۔

خواتین کے جنازے کو کندھا دینے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ یاد رہے—– کہ جان بحق ہونے والے یہ دونوں بچے آپس میں بہن بھائی تھے جو دس اکتوبر کو ضلع کیچ میں ہوشاپ کے علاقے پرکوٹگ میں بدامنی کے واقعہ میں جان بحق ہوئے تھے

اور ان کا ایک اور قریبی رشتہ دار زخمی بھی ہوا تھا۔بچوں کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ یہ لوگ فرنٹیئر کور کی جانب سے کیے جانے والے ایک اٹیک سے جان بحق ہوئے تاہم سرکاری حکام نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی موت ایسے خطرناک مواد کے ساتھ ہوئی

جس سے وہ غالباً کھیل رہے تھے۔ایف سی کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہ ہونے پر پہلے بچوں کے رشتہ داروں نے کیچ میں دو روز تک دھرنا دیا تھا اور اس کے بعد میتیں کوئٹہ لا کر چھ روز تک گورنر ہاﺅس کے قریب دھرنا دیا تھا۔

بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پر بچوں کی موت کا مقدمہ ان کے لواحقین کے مؤقف کے مطابق ایف سی کے اہلکاروں کے خلاف درج کرنے کے بعد دھرنے کو ختم کیا گیا لیکن بچوں کی میتوں کو واپس ہوشاپ لے کر دفنانے کی بجائے ان کی تدفین کوئٹہ میں کی گئی۔

بچوں کی تدفین اور ان کو کندھا دینے والی خواتین میں شامل ڈاکٹر ماہ رنگ نے بتایا کہ بچوں کے کفن ویسے بھی بھاری ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں——۔ ان کی اگر طبعی موت ہو جائے تو لوگ پھر بھی ان کا غم بھول جاتے ہیں لیکن اگر معصوم بچے بھی وحشت کا شکار ہو جائیں تو ان کا

غم بہت زیادہ ہوتا ہے—— اور ان کے غم کو بھلایا جانا مشکل ہوتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ان بچوں کا کوئی اور بہن بھائی نہیں تھا جبکہ ان کے والد دبئی میں ملازمت کرتے ہیں۔’بچوں کے والد کی حالت کو دیکھ کر تدفین میں شریک کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔‘انھوں نے کہا کہ ’مجھ سمیت جن خواتین نے بچوں کی میتوں کو کندھا دیا، وہ سب اشکبار تھیں اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ اب ہمارے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

‘ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’صرف یہ دو بچے ظلم کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اس سے قبل بھی بچے وحشت کا نشانہ بنتے رہے ہیں لیکن وہ واقعات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے۔دونوں بچوں کے تابوتوں کو کندھا دینے والوں میں چار بچوں کی ایک ماں فاطمہ بلوچ بھی شامل تھیں۔انھوں نے کہا کہ چھوٹے بچے ہر ایک کو پیارے ہوتے ہیں لیکن اگر وہ کسی المناک حادثے کا شکار ہو جائیں تو ان کا غم بہت زیادہ ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں خود بچوں کی ماں ہوں۔ ہم ان بچوں کے لیے بہت زیادہ دکھی ہوئے۔ جب ہم اپنے غم کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں تو ان کے ماں باپ کا کیا حال ہو گا۔‘بلوچستان میں خواتین اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتی رہی ہیں لیکن ماضی قریب میں وہ کسی کی تدفین میں شریک یا تابوت کو کندھا دیتی نظر نہیں آئیں۔پہلی مرتبہ خواتین ضلع کیچ میں کریمہ بلوچ کی تدفین کے موقع پر قبرستان میں نظر آئیں تھیں۔

FDFD454354CGR654654GTYT656565TRYTRY56

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں