قرآن کریم کی سب سے عظمت والی آیت – AJ News

قرآن کریم کی سب سے عظمت والی آیت -…

حضرت ابوذر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن میں کونسی آیت عظیم تر ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آیت الکرسی (بن کثیر بحوالہ مسند احمد ٣٠٥۔ ١)

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآنی آیات کی سردار ہے وہ جس گھر میں پڑھی جائے اس سے شیطان نکل جاتا ہے ۔

(مظہری بحوالہ ترمذی وحاکم ٣٦١۔ ١)

اس آیت میں اللہ رب العزت کی توحید ذات وصفات کا بےان ایک عجیب غریب انداز میں بیان کیا گیا ہے ،جس میں اللہ جل شانہ کا موجود ہونا ،زندہ ہو نا ،سمیع وبصیرہونا ،متکلم ہونا، واجب الوجود ہونا، دائم وباقی ہونا، سب کائنات کا موجد و خالق ہونا،، تغیرات اور تا ثرات سے بالا تر ہونا،

تمام کائنات کا مالک ہو نا ،صاحب عظمت وجلال ہونا ،کہ اس کے آگے کوئی بغیر اس کی اجازت کے بول نہیں سکتا،ایسی قدرت کاملہ کا مالک ہونا کہ سارے عالم اور اس کی کائنات کو پیدا کرنے باقی رکھنے اور ان کا نظام محکم قائم رکھنے سے اس کو نہ کو ئی تھکان پیش آتا ہے

نہ سستی ،ایسے علم محیط کا مالک ہونا جس سے کوئی کھلی ےا چھپی چیز کا کو ئی ذرہ یا قطرہ باہر نہ رہے ،یہ اجمالی مفہوم ہے ۔

حضرت انس (رض) کی روایت میں ہے کہ آیت الکرسی ثواب کے اعتبار سے چوتھائی قرآن کے برابر ہے ۔ (مظہری بحوالہ مسند احمد ٣٦١۔ ١)

تشریح :

اس مبارک آیت میں دس جملے ہیں :

١۔ ” اللہ لا الہ الا ھو “۔

اس میں لفظ اللہ اسم ذات ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو تمام کمالات کی جامع اور تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے ، وہی دانا ، بینا ، صاحب قدرت و ارادہ ہے اس لیے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔

٢۔ ” الحی القیوم “۔

عربی زبان میں حی کے معنی ہیں زندہ ، یہاں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت حیات بیان کرنے کے لیے لایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا ہے اور موت سے بالاتر ہے ، اس کی تمام صفات ازلی وابدی ہیں

القیوم یہ قیام سے نکلا ہے جس کے معنی کھڑے ہونے ہیں ، یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو خود قائم رہ کر دوسروں کو قائم رکھتا اور سنبھالتا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہو سکتی ، اللہ تعالیٰ کے قیوم ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز اپنی ہستی کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اسی طرح بقا ہستی میں بھی اس سے بےنیاز نہیں ، جس طرح سایہ اصل شئے کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ کائنات اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے ،

اللہ تعالیٰ ہی کی شان اعلی ہے ۔

٣۔ ” لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “۔

سنہ اونگھ کو کہتے ہیں جو دماغی اعصاب کی وہ سستی ہوتی ہے جو نیند کا پیش خیمہ ہوتی ہے ، نوم مکمل نیند کو کہتے ہیں ۔

دوسرے جملہ میں بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کو تھامے اور سنبھالے ہوئے ہے اور ساری کائنات اسی کے سہارے قائم ہے ، اس لیے انسان اپنی فطرت کے مطابق یہ خیال کر سکتا ہے جو ذات پاک اتنا بڑا کام کر رہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہو سکتی ہے اور اس کو کچھ آرام ونیند کے لیے بھی چاہیے ، اس لیے اس جملے میں محدود علم وبصیرت رکھنے والے انسان کو بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دوسری مخلوقات پر قیاس نہ کرے اور نہ اپنے جیسا سمجھے ، وہ مثل و مثال ، تکان ، اونگھ ، نیند اور ایسے ہی دوسرے اثرات سے بالاتر ہے ۔

٤۔ ” لہ ما فی السموت وما فی الارض “۔

تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں ، وہ مختار ہے ، جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے ۔

٥۔ ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “۔

اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور اس امر کا بیان ہے کہ کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ، کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں باز پرس کرنے کا حق نہیں رکھتا وہ جو حکم جاری کر دے اس میں کسی کو چون وچرا کی مجال نہیں ، اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس سے کسی کی سفارش وشفاعت بھی نہیں کرسکتا ،

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حشر کے روز سب سے پہلے میں ہی ساری امتوں کی شفاعت کروں گا اسی کا نام مقام محمود ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات میں سے ہے ۔

٦۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم “۔

اللہ تعالیٰ انسان کے ظاہری وباطنی حالات و واقعات سے باخبر ہے ، آگے پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد تمام حالات و واقعات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو انسان جانتے ہیں اور وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو انسان نہیں جانتے ۔

٧۔ ” ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شآء “۔

انسان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے علم کا جتنا حصہ کسی کو عطا کرنا چاہے تو اس کو صرف اتنا ہی علم ہو سکتا ہے ۔

٨۔ ” وسع کرسیہ السموت والارض “۔

اس کی کرسی اتنی وسیع ہے کہ اس کی وسعت کے اندر ساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں ،

تفسیر بیضاوی میں ہے کہ یہ محض تمثیل ہے ، اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کی تصویر کشی مقصود ہے ورنہ حقیقت میں نہ اللہ تعالیٰ کی کرسی ہے اور نہ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ،

حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں قدرت میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمین کی مثال کرسی کے مقابلہ ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگوٹھی جیسا حلقہ ڈالدیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ نشست وبرخاست اور زمان ومکان سے بالاتر ہے ، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ، اس کی کیفیت و حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالا تر ہے ۔

٩۔ ولا یؤدہ حفظھما “۔

یؤد ، اود سے ماخوذ ہے اور اود کے معنی کجی اور ٹیڑھا پن کے ہیں ، آسمان و زمین یا کرسی اور کرسی کے اندر سمائی ہوئی چیزوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی ، کیونکہ اس کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں ۔

١٠۔ ” وھو العلی العظیم “۔

گزشتہ نو جملوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور کمالات کا بیان تھا ، ان تمام صفات و کمالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد کوئی عقل و شعور رکھنے والا انسان یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ

ہر قسم کی عزت و عظمت اور بلندی و برتری کی مالک و سزا وار وہی ذات پاک ہے جو مذکورہ بالاذاتی وصفاتی کمالات کی حامل ہو ۔

Read more news articles below

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں