4ہفتوں میں رپورٹ پیش کریں ورنہ۔۔۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو ہدایات جاری کر دیں – Qahani.com

4ہفتوں میں رپورٹ پیش کریں ورنہ۔… سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو ہدایات جاری کر دیں –

 

Android App iOS App

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ اے پی ایس سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران حکومت کو مثبت اقدامات کرنے کی ہدایت کر دی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین پر

مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس پر سماعت کی۔ عدالت نے وزیراعظم عمران خان سے سوال و جواب کیے جس کے وزیراعظم عمران خان نے روسٹرم پر آ کر جواب دیے۔ وزیراعظم عمران خان کے جوابات کے

بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو ہدایت کی کہ معاملے پر مثبت اقدامات کیے جائیں۔ سپریم کورٹ نے 4 ہفتوں میں سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے تعین کا حکم دیتے ہوئے وزیراعظم سے اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی، سپریم کورٹ نے حکم دیا

کہ اس سارے معاملے میں شہید بچوں کے والدین کو بھی ساتھ ملایا جائے اور اس حوالے سے رپورٹ چار ہفتوں میں عدالت کو پیش کی جائے۔ عدالت نے 20 اکتوبر کے حکم نامے پر عملدرآمد کی ہدایت کی جس پر وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت چار ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔ خیال رہے کہ آج صبح سانحہ اے پی ایس سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو آج ہی طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی

بنچ نے سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس پر سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ واقعہ سکیورٹی لیپس تھا،

حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئیے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاعات ہونی چاہئیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں

لیکن جب ہمارے اپنے لوگوں کی سکیورٹی کا معاملہ آتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب جاری تھا اور اس کے ردعمل میں یہ واقعہ پیش آیا، ہمارے حکومتی اداروں کو

اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اورآسان ہدف اسکول کےبچے تھے، ممکن نہیں دہشت گردوں کواندر سے سپورٹ نہ ملی ہو جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو ایسے مرنے نہیں دے سکتے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اے پی ایس کا واقعہ سکیورٹی کی ناکامی تھی؟ کیس میں رہ جانے والی خلا سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، لیکن اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں دفتر چھوڑ دوں گا کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف ودیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا سابق آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی فائنڈنگ نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے

کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے اور دعوی بھی ہے ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہیں، انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہورہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا

اداروں کومعلوم ہونا چاہئیے تھا قبائلی علاقوں میں آپریشن کا ردعمل آئے گا۔ سپریم کورٹ میں دوران سماعت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ جس پر وکیل والدین امان

اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ جس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں ،یہ عدالت ہے۔ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بچوں کوا سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہئیے تھی۔اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا

کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کیا ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنجیدگی

کا عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے ،ایسے نہیں چلے گا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو آج ہی طلب کر لیا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ اگر مجھے وقت دیا جائے تو میں وزیراعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کریں گے ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ دوران سماعت وزیراعظم عمران خان عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان ججز گیٹ سے سپریم کورٹ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، معاون خصوصی

ڈاکٹر شہباز گل ، وفاقی وزیر علی زیدی، وزیر مملکت فرخ حبیب ، سینیٹر عون عباس اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی موجود تھے۔دوران سماعت وزیراعظم خان روسٹرم پر آئے۔ وزیراعظم عمران خان نے روسٹرم پر آ کر بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں دھرنے میں موجود تھا لیکن واقعہ کی اطلاع ملتے ہی میں تو فوری طور پر پشاور پہنچا اور بچوں کے والدین سے ملاقات کی۔اسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا، واقعہ کے وقت ماں باپ سکتے میں تھے۔صوبائی حکومت جو بھی مداوا کرسکتی تھی کیا، والدین کہتے ہیں ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہئیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے، والدین کو تسلی دینا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلوانے کے لیے کیا کیا ؟ وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ ہم اس وقت مرکز میں نہیں

تھے۔ سانحہ کے وقت ہماری صوبائی حکومت تھی اور ہم نے تمام اہم اقدامات کیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ تو اقتدار میں ہیں ، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا ؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں جن کو مجرم کہا جا رہا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں، ایک ایک کر کے وضاحت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا؟ سریم کورٹ نے سوال کیا کہ آپ نے آگے کے لیے کیا احکامات کیے؟ آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ میں اسی ہزار لوگ شہید ہوئے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئیے،

ہمیں نیوٹرل رہنا چاہئیے، ہمارا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے اور دشمن کون؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ وزیراعظم ہیں، آپ کا احترام کرتے ہیں۔یہ بتائیں کہ سانحہ کے بعد آپ نے کیا اقدامات اُٹھائے ؟ جس پر وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ ہماری جماعت نے شہدا کے لواحقین سے ملاقات کی۔ ہم نے سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم نے نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی جو سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دیکھ رہی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف اس لیے جیتے کیونکہ قوم ہمارے پیچھے کھڑی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے،آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے، میں قانون کی حکمرانی پر مکمل یقین رکھتا ہوں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات سے

متعلق ازخود نوٹس لیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے سال 2018 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا اور کمیشن کی رپورٹ 2 ماہ کے اندر پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔سابق چیف جسٹس نے کیس کی سست روی پر نوٹس بھی لیا تھا، یہ نوٹس اس وقت لیا گیا تھا جب سپریم کورٹ پشاور رجسٹری کے باہر سانحے میں شہید بچوں کے والدین نے احتجاج کیا، مظاہرین نے چیف جسٹس سے انصاف کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی درخواست پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور ہائی کورٹ کے سینیر جج کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ 2 ہفتے قبل سپریم کورٹ جمع کروائی تھی۔ یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کرکے 150 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ جس میں بڑی تعداد بچوں کی تھی، جب کہ شہداء میں ٹیچرز بھی شامل تھے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث 4 دہشت گردوں کو دسمبر 2015ء میں سزائے موت دیدی گئی۔ ان ملزمان کو ملٹری کورٹس نے سزائیں سنائیں۔ جس کی اس وقت کے آرمی چیف نے توثیق کی تھی۔

read more news articles

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں