”تجزیہ کار مظہرعباس کی یقین کے ساتھ پیشگوئی“ کراچی( ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مظہر عباس اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں… وزیراعظم عمران خان اور ان کی کور ٹیم کونہ صرف حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا یقین ہے

جو اگست 2023 میں پوری ہوگی بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں….. کہ آئندہ الیکشن میں وہ 2018 سے زیادہ نشستیں حاصل کریں گے۔وہ قبل از وقت انتخابات یا وزیراعظم یا وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف اپوزیشن

کی کسی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ اپوزیشن کا خیال اس سے الٹ ہے۔

انہوں نے ایک طرف پی ڈی ایم کو پھر فعال کردیا ہے اور دوسری طرف اپنے آپس کے ، بالخصوص دو بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ دیکھنا ہوگا آخر ی کامیابی کسے ہوتی ہے۔

تازہ پیش رفت یہ ہے—– کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں بیک ڈور رابطے ہوئے ہیں ، دونوں نے ایک دوسرے کو سینیٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلی میں اپنے نمبرز سے آگاہ کیا ہے…… ۔پیپلز پارٹی نے بعض حکومتی ارکان کے ساتھ دینے کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔ مسلم لیگ ن میں ایک مضبوط گروپ بھی اب پیپلز پارٹی کےعدم اعتماد کے موقف کی طرف مائل ہوا ہے۔

اب اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ آغاز سینیٹ سے کیا جائے یا پنجاب اسمبلی سے۔گزشتہ تین سال میں وہ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اسلام آباد سے انتخاب کے سوا کسی موقع پر عمران خان کو پریشان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو اتنا اعتماد کس بات کا ہے—— جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے

کہ مسلم لیگ (ق) اور جہانگیر ترین گروپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن ) سے جاملے تو بزدار کے خلاف تحریک….. عدم اعتماد کی کامیابی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔کپتان کو ان دونوں پر اعتماد تو نہیں ، لیکن شاید یہ یقین ہے :کہ ایسے موقع پر وہ انہیں دھوکا نہیں دیں گے۔

بعض کا خیال ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کے ہینڈلر انہیں سنبھال لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی کور ٹیم اور دوسرے لیڈروں کو بتایا ہے کہ وہ پریشان نہ ہوں…. ۔انہیں دونوں میں باہمی بے اعتمادی اور بالخصوص مسلم لیگ (ن) میں بیانیے کا اختلاف نظر آرہاہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں-;— کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے ان کے مخالفین میں صلاحیت یا اعتماد ہے :نہ مطلوبہ اکثریت۔ وزیراعظم کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا

کہ عمران خان کہتے ہیں کہ آئین کے تحت انہیں تحریک عدم اعتماد لانے کا پورا حق ہے لیکن پہلے وہ خود اپنی صفوں میں بھی تو ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کریں۔ ابھی تک تو یہ نہیں ہے، جیسا کہ سینیٹ الیکشن اور پی ڈی ایم میں ظاہر ہوا۔

READ MORE NEWS ALSO .——