اب بھی شادی کی خواہش ہے لبنانی بوڑھے کی مردانگی نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دی – Nation 92 News

اب بھی شادی کی خواہش ہے,,, لبنانی بوڑھے کی مردانگی نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دی —

اسلام آباد(–نیوز ڈیسک–) لبنانی بوڑھے کی مردانگی نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ جب 118 سال کے عمر میں باپ بن گئے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔

اس لئے شادی کو ایک جوبن کی عمر میں کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اور ڈھلتی عمر میں شادی سے گریز کرنے کا کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک لبنان کے 125 سالہ شہری نے تو ایسا دعویٰ کر ڈالا ہے

کہ شاید کئی لوگوں کو ان کی بات پر یقین نہیں آئے گا،۔ سلطان المل نامی یہ معمر ترین شخص اآج سے 7سال قبل یعنی 118سال کی عمر میں باپ بھی بن چکا ہے ۔ اور اب بھی شادی کی خواہش رکھتا ہے۔

اپنی صحت کے حوالے سے بتاتے ہوئے سلطان کا کہنا ہےکہ اس کے دو راز ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں دو میل پیدل چلتا ہوں۔اور دوسرا میںروزانہ کارب، تھائی، کوئنوا ، اینائزسے بنے قہوے کا ایک کپ روزانہ اللہ کی رضا

کی ساتھ پیتاہوں“۔سلطان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ سوا صدی کی عمر کا یہ آدمی اب بھی نوجوان لڑکیوں کو گھور کر دیکھتا ہے۔ اور اج بھی جوانوں کے کی تندرست ہے۔ کہ جس طرح 25 سال کا لڑکا جوان ہوتا ہے۔

دوسری جانب محبت کی قصے آپ نے تو بہت سے سنے ہوں گے، لیکن آج کے اس دور میں ہم آپ کو ایک ایسا محبت سے برا واقعہ سنا رہی ہیں۔ جس کا قصہ سن کر شاید آپ بھی یہی کہے، کہ واقعی ہی یہ اس دور کے لیلا اور مجنوں ہیں۔ ملتان کا ایسا جوڑا جس نے محبت کی مثال قائم کر دی۔

تفصیلات کے مطابق ملتان کا جوڑا جنہوں نے 1984 ء میں شادی کی، لیکن ان کے اولاد نہ ہوئی– لیکن باوجود ان دونوں کا پیار مثالی بن گیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

مطابق مختار احمد کے روزگا ر کا ذریعہ صرف ایک رکشہ اور رہنے کیلئے ایک کمرہ جس کی چھت دو سال قبل گر گئی تھی ۔ ان کی سردیاں اور گرمیاں دونوں آسمان تلے گزرتی ہیں– بارش ہونے کی صورت میں پلاسٹک کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ۔ مختار احمد اپنی اہلیہ شاہین کو ساتھ لے کر رکشہ چلاتے ہیں ،

انکا کہنا ہے کہ وہ ان کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔مختار احمد اور ان کی اہلیہ دونوں اپنے ساتھ سوکھی روٹی کا ناشتہ لے کر صبح سویر ے گھر سے نکلتے ہیں ، دن کو ہوٹل میں ایک پلیٹ لے کر کھانا کھا لیتے ہیں ۔

شادی سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا ۔مختار احمد کا کہنا تھا کہ یہ اتنی اچھی تھیں– کہ ان سے پیار ہو گیا ۔ شادی 1984ء میں ہوئی ۔ ملتان سے کراچی گئے جہاں شاہین کا مسلسل نویں بار بھی حمل ضائع ہو گیا ۔ مختار کا کہنا تھا

کہ مجھے وہ دن آج بھی نہیں بھولتا جب ہمارا بچہ 9اور چار دن کا ضائع ہوااس سے قبل ہر بچہ چھ ماہ میں ضائع ہو جاتا تھا ۔ اس کے بعد شاہین کی ذہنی حالت بگڑ گئی جو آہستہ آہستہ خراب ہو گئی ۔ مختار احمد اپنی اہلیہ کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں ۔

ان کو وقت پر دوا دینا ، سرمہ لگانا ، کھانا پکانا ، کھنگی کرنا یہاں تک سارے گھر کے کام خود کرتے ہیں ۔ مختار احمد کے گھر والوں نے ان پر کافی دفعہ دوسری شادی کا دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک ملتان نہ جاتے— تاکہ ان پر دوسری شادی کا دبائو نہ ڈالا جائے ۔ دوسری شادی کا مشورہ دینے والوں کو مختار ہمیشہ یہی جواب دیتے ہیں– کہ جب اللہ پاک نے ایک ہی اتنی پیاری بیوی دی ہے جو لاکھوں میں ایک تو پھر ایسے میں دوسری کی کیا ضرورت ہے۔ مختار احمد کا کہنا ہے

کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ سواریاں میرے رکشے میں صرف اس لیے نہیں بیٹھتیں کہ میں نے اپنی بیماری بیوی کو ساتھ بٹھایا ہوا لیکن مجھے ان سب کی پرواہ نہیں ہوتی ، مناسب دیہاڑی لگنے پر واپس گھر لوٹ جاتا ہوں ۔ مختار احمد اپنی اہلیہ کیساتھ کئی سالوں سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیںلیکن ہمت نہیں ہاری ۔

مختار احمد نے اپنی زندگی کی جمع پونچھی اپنی اہلیہ کے علاج پر خرچ کر دی ہے ،یہاں تک کہ دونوں سڑک پر آگئے رکشہ بھی تین ماہ قبل خریدا ہے۔ واقعی یہ ایک عظیم جوڑا ہے جنہوں نے ایک دکھ بھری زندگی گزارنے کے باوجود ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا ہے۔

READ MORE NEWS ARTICLES BELOW

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں