جہانگیر ترین جب تحریک انصاف میں آئے تو عمران خان کو پہلا تحفہ کیا دیا؟ عمران خان کی ایما پر کس کس کی گرفتاریاں کی گئیں؟ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی، تما م خفیہ راز عوام کے سامنے لے آئے

جہانگیر ترین جب تحریک انصاف میں آئے تو عمران خان کو پہلا تحفہ کیا دیا… ؟ عمران خان کی ایما پر کس کس کی گرفتاریاں کی گئیں؟ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی، تما م خفیہ راز عوام کے سامنے لے آئے

 

لاہور(نیوز ڈیسک) سلیم صافی آج کل اپنے یوٹیوب چینل پر ایک سیریز کر رہے ہیں۔ اس سیریز میں وہ ایسے افراد کے انٹرویو کر رہے ہیں جو صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں

لیکن 2018 انتخابات سے قبل اور اس کے بعد بھی کافی عرصے تک ان کے حامی تصور کیے جاتے تھے۔ تازہ ترین قسط میں انہوں نے محسن بیگ کو انٹرویو کیا ہے۔ محسن بیگ

 

 

سینیئر صحافی ہیں، آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک ہیں اور عمران خان کے قریبی لوگوں میں ہی نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے بھی قریب سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بہت سے انکشافات کیے ہیں۔

محسن بیگ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قائل کیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ شامل ہوں۔ ان لوگوں کے اپنے حلقے تھے، یہاں تک کہ گورنر چودھری سرور کو بھی میں ہی پارٹی میں لے کر آیا اور اسی کمرے میں ان کی عمران خان صاحب سے ملاقات کروائی۔

عمران خان صاحب چاہتے تھے کہ نئے چہرے لے کر آئیں، میں نے انہیں سمجھایا کہ نئے چہروں کی ضرورت فلموں میں ہوتی ہے۔ آپ نے پھر دیکھا کہ وہ نئے چہرے کوئی 20 کے قریب سینیٹ انتخابات میں بک گئے جن کو بعد میں انہوں نے پارٹی سے نکالا بھی۔

بیگ کے مطابق انہوں نے PTI کو کئی لوگوں سے چندہ لے کر دیا۔ “مجھے نہیں پتہ انہوں نے اس پیسے کا کیا کیا لیکن یہ تقریباً ایک ارب روپیہ تھا۔”محسن بیگ نے کہا کہ میں نے عمران خان کو بہت سمجھایا کہ لوگوں کو عزت دیں، چاہے کارکنان ہی ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگوں کی رائے ان کے بارے میں یہ تھی کہ یہ طریقے سے ہاتھ نہیں ملاتے، اڑیل ہیں وغیرہ،

تو میں نے ان کو کافی لوگوں سے ملوایا بھی۔ یہ درست ہے کہ ان کے لئے میں نے اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے بھی بات کی اور ان کے تعلقات وہاں پر بھی بنوائے۔”نواز شریف کی حکومت نے ہر بار ہمارے خلاف کیسز بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارا کاروبار بالکل جائز ہے، اس لئے وہ بنا نہیں سکے۔ انہوں

نے پانچ سال میرے دونوں اخباروں کو کوئی اشتہار نہیں دیے۔ جب میرا اخبار ہے، چھپتا ہے، بکتا ہے تو اشتہار اس کا حق ہیں لیکن انہوں نے نہیں دیے اور میں نے بھی کبھی ان سے اشتہار لینے کی کوشش نہیں کی۔”محسن بیگ نے سلیم صافی کو بتایا کہ زرداری صاحب میرے ہمسائے ہیں، وہ کہتے تھے کہ آپ ہمارے مخالفین کی کیوں مدد کر رہے ہیں؟ ہمارے گھر بھی آمنے سامنے ہیں اور عمران خان کا یہاں بہت آنا جانا تھا۔ تو میں نے زرداری صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ نواز شریف کا اس وقت کوئی مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ عمران خان ہے۔ خان صاحب کبھی حکومت میں نہیں آئے تھے، ان کا تاثر ایک صاف شفاف آدمی کا تھا۔ عوام میں انہیں بیچنا نسبتاً آسان تھا۔ لیکن اب احساس ہوا کہ وہ ہمیں بھی سادگی دکھا کر دھوکہ دے رہے تھے۔سلیم صافی نے پوچھا کہ آپ اتنے جہاندیدہ شخص ہیں، کیسے بیوقوف بن گئے؟ اس پر محسن بیگ نے کہا کہ میں بھی کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین صاحب نے جو کچھ پروگرام میں ان کے فنڈز کے حوالے سے کہا، جس پر عمران خان بہت غصہ بھی ہوئے، مجھ سے بھی ہوئے۔ فنانشل کرپشن سے بڑی چیز اخلاقی کرپشن ہے لیکن ہم سے یہ چیزیں نظر انداز ہوئیں۔محسن بیگ کا کہنا تھا کہ اگر یہ مالی کرپشن نہیں کر رہے تو ان کا سارا نظام چل کیسے رہا تھا؟ کل بھی ان کا میں نے بلیزر دیکھا، وہ 2 لاکھ تنخواہ میں تو نہیں آتا۔ یہ سارے خرچے کیسے ہوتے ہیں؟ ان کی کون سی آمدنی ہے؟ کون سا ٹیکس دیتے ہیں؟

 

 

وہ ہمیں لا کر دکھا کیوں نہیں دیتے کہ یہ سب کہاں سے ہو رہا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کرتے ہیں، یہی بتا دیں یہ بلیزر کہاں سے لیا؟میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن وجیہ الدین صاحب جھوٹ نہیں بول رہے۔ یہ میں تصدیق کر دیتا ہوں۔جس دن جہانگیر ترین پارٹی میں آئے تو لینڈ کروزر تحفے میں دی جو خان صاحب چھ، سات سال چلاتے رہے۔ تو لہٰذا پیسے بالکل گئے ہیں، لیکن کیش کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔محسن بیگ کے مطابق عمران خان سے ان کی آخری میٹنگ وہ تھی ‘جب انہوں نے کابینہ کے دیگر اراکین کے ساتھ مجھے بھی بلایا اور وہ اجلاس محض اس مقصد کے لئے تھا کہ میر شکیل اور حمید ہارون کے اشتہار بند کرو، پکڑو اور کیسز بناؤ۔ میں نے اس پر مخالفت کی کہ نواز شریف صاحب نے ہمارے پانچ سال اشتہار بند رکھے، میں مرا نہیں۔ آپ اشتہار کم کر دیں، بند نہ کریں۔ دوسرا کیسز اور گرفتاریوں والی بات نہ کریں۔ اب آپ سرکار میں ہیں۔ انہوں نے آپ کے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مخالفت ضرور کی لیکن ہم نے آپ کو نیچے نہیں گرنے دیا۔ ہم بھی مقابلے پر تھے۔ آپ کے خلاف خبر لگتی تو اس کا جواب یہاں سے جاتا تھا۔ کسی بھی سرکار کے لئے میڈیا منیجمنٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنا ایک بیانیہ بنانا ہوتا ہے۔ ایک طرف سے غلط خبر آ جائے تو دوسری طرف سے بیانیہ مضبوط کرنے والی خبر بھی آنی چاہیے تاکہ مقبولیت کم نہ ہو۔سلیم صافی نے کہا کہ آپ کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ میر شکیل کو جو گرفتار کیا گیا تھا، وہ

بھی عمران خان کی ایما پر کیا گیا ہوگا۔ محسن بیگ کا کہنا تھا کہ ملین، ٹریلین پرسنٹ۔ میں نے بہت سمجھایا کہ لوگوں سے بدلہ نہیں لیا جاتا، ان کو maneuver کیا جاتا ہے۔ میں اٹھ کر آ گیا کیونکہ وہ میری بات نہیں سن رہے تھے۔ مجھے دو وزرا نے شام کو بتایا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا، اور آپ نے ان کو غصہ دلا دیا، اور آپ کے جانے کے بعد انہوں نے آپ کے بارے میں یہ الفاظ بولے۔ میں نے اس دن ان کو ایک میسج کیا اور پھر ان کا نمبر بلاک کر دیا۔ میں نے کہا آپ کو دلالوں کے خیالات پسند ہیں، اور میں وہ نہیں ہوں۔سلیم صافی نے پوچھا کہ کیا صحافیوں اور سیاسی مخالفین کو گالم گولچ عمران خان کی ایما پر کیا جاتا تھا تو محسن بیگ کا کہنا تھا کہ بالکل، وہ بڑے خوش ہوتے ہیں جب مخالفین کے ساتھ بدتمیزی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ “وہ ایک کردار ہے ڈاکٹر ارسلان خالد جس کو ایک بندا 25 لاکھ روپیہ پہلے دیتا تھا اور ابھی بھی اس کو 25 لاکھ روپے شاید ریڈیو یا پی ٹی وی وغیرہ کے کسی کھاتے سے جاتے ہیں۔ میرے خلاف بھی تنقید کا جواب اسی طرح سے آیا۔ لیکن آج جو کچھ سوشل میڈیا عمران خان کے بارے میں کہہ رہا ہے، یہ لوگ اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ وہ عام آدمی کے جذبات ہیں۔”محسن بیگ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس دو سال نہیں ہیں۔ ان کے دن تھوڑے ہیں۔ کیونکہ جس طرح کی کارکردگی ہے، ملک ایسے چلایا نہیں جاتا۔ سوائے مخالفین سے انتقام لینے کے کچھ نہیں کیا۔ جھوٹ بول رہے ہیں کہ 4 فیصد شرح نمو ہے۔ اگر

 

 

4 فیصد ہے تو منی بجٹ کیوں لا رہے ہیں؟ایک سوال کے جواب میں سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو لوگوں کے ذریعے حکومت چلائی۔ “نیب سربراہ کو عمران خان صاحب پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس بدکردار آدمی کی جو ویڈیو آئی، اس کے بعد وہ ان کے قابو میں آ گیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے جو ISI سربراہ تھے ان کے اوپر بھی بہت سے الزامات لگے۔ کیونکہ وہ بھی سب لوگوں کو کہتے تھے کہ اس کو میں نے بنایا، عمران خان کے بارے میں بھی یہی کہتے تھے۔ “تبھی اپوزیشن نے ان کو سلیکٹڈ کہا تھا۔ کیونکہ سب کاموں کا کریڈٹ تو وہ لے رہے تھے۔ تو جب کریڈٹ آپ کو جائے گا تو نقصان بھی آپ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک صاحب تو چلے گئے۔ چیئرمین نیب رہ گیا۔ تو کافی حد تک بھائی صاحب نیچے آ گئے ہیں۔ اور اگر اب اپوزیشن کوئی بھی move کرتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہتی ہے تو۔۔۔”جب RTS کے لئے اجلاس ہوا تو وہاں کچھ لوگ موجود تھے جنہوں نے اس کا password یاد کر لیا۔ اور ان لوگوں نے ہی اسے بند کیا۔ اس سے فرق پڑا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اتنا نہیں پڑا۔ عمران خان کو واقعتاً ووٹ بھی بہت لوگوں نے دیا لیکن جتنی بڑی فتح ان کو ملی، اتنی بڑی وہ نہیں ہو سکتی تھی اگر وہ پاس ورڈ نہ ہوتا جو کہ دیا نہیں گیا تھا، چوری کیا گیا تھا۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ 2014 میں دھرنے اور لاک ڈاؤن وغیرہ میں بھی ایجنسیاں ملوث تھیں۔ “نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ ظہیر الاسلام کا تعلق تھا تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ جب آپ وزیر اعظم ہوں، اور یہ سب آپ کے علم میں ہو تو آپ نے آرمی چیف کو کہہ کر انہیں کیوں نہیں ہٹایا؟ لیکن جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو ہاں ملوث تو یہ تھیں۔”

 

 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں