سعودی عرب میں پاکستانی سفیربلال اکبر کا پاکستانیوں کیلئے بڑا اعلان –

سعودی عرب میں پاکستانی سفیربلال اکبر کا پاکستانیوں کیلئے بڑا اعلان —

سعودی عرب میں سفیر پاکستان بلال اکبر ذاتی نمبر پر پاکستانی کمیونٹی کے مسائل سنیں گے— تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر بلال اکبر نے ذاتی نمبر پر پاکستانی کمیونٹی کے مسائل سننے کااعلان کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کمیونٹی کے مسائل سننے کے لیے

ذاتی نمبر دے دیا اور کہا سعودی مقامی وقت کیمطابق دوپہر3بجے سے ٹیلیفون پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کو سعودی عرب کا سفیر نامزد کیا گیا ہے، جس کے بعد جہاں ایک طرف پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد حفیظ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسے ’انتظامی‘ معاملہ کہا

، وہیں دوسری جانب یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بدلتے تعلقات میں ایک ریٹائرڈ جنرل کی متوقع تقرری کتنی مددگار ثابت ہو گی؟

لیفٹننٹ جنرل (ر) بلال اکبر سے پہلے راجہ علی اعجاز اسی عہدے پر فائز تھے…. جو کہ ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں اور متعدد ممالک میں سفیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور اگر پاکستان کے سعودی عرب میں بھیجے گئے

سفیروں کی تاریخ دیکھیں تو ان میں تین نیوی کے سابق ایڈمرل اور آئی ایس آئی کے سابق چیف اسد درانی کو بطور سفیر سعودی عرب بھیجا گیا تھا۔ ایڈمرل عزیز مرزا، حشام صدیق بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ جس سے عمومی تاثر یہی ملتا ہے کہ پاکستان کی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بنیاد

سفارتی سے زیادہ حفاظتی بنیادوں پر ہے۔

جبکہ اگر جنرل (ر) بلال اکبر کی بات کریں تو وہ پاکستان کی فوج میں بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور دسمبر 2020 میں ریٹائر ہوئے تھے۔

سفارتکاری کس کا کام ہے؟

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب ہم سالہا سال سفارتکاروں کو مختلف ممالک میں رکھتے ہیں ان کی ٹریننگ ہوتی ہے، تو پھر ان کو ہی ان اہم عہدوں پر فائز بھی کیا جانا چاہیے

۔ اگر آپ کے خیال میں سفارتکار اچھے نہیں ہیں تو بے شک سارے جنرل لگا دیں یا بزنس مین لگا دیں۔ بات یہ ہے کہ آپ نے ملک کا کام کس سے کرانا ہے۔ اور ملک کو کس سے فائدہ ہو رہا ہے۔ اس طرح آپ مجھے واہگہ بارڈر بھیج دیں گے تو کیا فائدہ ہو گا؟ میں نے تو کبھی لڑائی نہیں لڑی۔’

دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلانیہ پالیسی یہ ہے کہ بزنس بڑھانا ہے۔ ’ہمیں یہ روز سننے کو ملتا ہے لیکن آپریشنل پالیسی یہ ہے کہ آپ دفاعی امور کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ اب یہ بذاتِ خود ایک بڑا واضح فرق ہے۔

اگر آپ سفارتی عہدے پر حفاظتی امور کے ماہر کو بھجوائیں گے تو تاثر یہی ملے گا کہ آپ کی ترجیح حفاظتی امور ہیں نہ کہ ملک کے سفارتی تعلقات۔’

انھوں نے کہا کہ ’سفیر کا کام دو چار فون گھمانا یا فنکشن کرانا نہیں ہے۔ اگر آپ سعودی عرب نہیں بھیجیں گے تو کہیں اور بھیج دیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہاں (یعنی سعودی عرب) بھیجنے کے پیچھے وجہ پرفارمنس سے منسلک ہے۔ یا پھر پریشر ہے۔‘

READ MORE NEWS ARTICLES BELOW

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں