لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایف بی آر نے سال 2019کے ٹیکس گوشواروں پر مشتمل ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کر دی ہے، جس کے مطابق پارلیمنٹ میں موجود بعض بڑے اور نامور سیاستدانوں نے بہت معمولی رقم ٹیکس کی مد میں ادا کی ہے۔

کچھ تو ایسے بڑے نام تھے جو کروڑوں، اربوں کے مالک ہیں، اُن کے سوٹ ہی لاکھوں میں آتے ہوں گے، اُنہوں نے تو ایک پیسہ بھی ٹیکس جمع نہیں کروایا۔ ایسے اربوں پتی بھی ہیں جن کا روز کا خرچہ لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتا ہے، اُنہوں نے ٹیکس میں صرف اتنے روپے جمع کرائے کہ میرے جیسے عام صحافی سے بھی پیچھے رہ گئے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مہربانی کی اور 2 ہزار روپے ٹیکس دیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان جو میری اطلاع کے مطابق بہت پیسے والی شخصیت ہیں، اُنہوں نے 66 ہزار روپے ٹیکس دیا، آصف علی زرداری جن کے اربوں کا بھی حساب نہیں۔اُنہوں نے صرف 22 لاکھ روپے ٹیکس دیا، اُن کے بیٹے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے پاکستانی قوم پر مہربانی کرتے ہوے تقریباً پانچ لاکھ رویے ٹیکس دیا۔ بلاول کو شاید خود بھی اندازہ نہیں کہ اُن کے پاس کتنا پیسہ ہے، اُن کی جائیدادیں ملک اور بیرونِ ملک میں بھی ہیں لیکن اس سب کے باوجود اُنہوں نے جو ٹیکس دیا اُس سے زیادہ روزانہ کا خرچہ قومی خزانے سے اُن پر ہوتا ہوگا۔ کاش سندھ حکومت یہ بتا دے کہ بلاول کے پروٹوکول پر کتنا سالانہ خرچہ ہوتا ہے؟ کم از کم بلاول صاحب ٹیکس کی مد میں اُتنا پیسہ تو دے دیں جو غریب عوام کے پیسہ سے اُن پر خرچ ہوتا ہے یا پھر وہ یہ اعلان ہی کر دیں کہ اُن کے پروٹوکول پر جو خرچ آئے گا۔

وہ خود حکومت کو ادا کریں گے۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف بھی ارب پتی ہیں لیکن اُنہوں نے بھی ٹیکس کی مد میں جو پیسہ دیا (تقریباً 82 لاکھ روپے) وہ اُن کی مالی حیثیت سے بہت کم ہے۔شاہ محمود قریشی بھی پیسے والے آدمی ہیں لیکن ٹیکس صرف آٹھ لاکھ روپے دیا۔ فواد چوہدری نے دو لاکھ روپے سے بھی کم ٹیکس دیا۔ وزیراعظم عمران خان جو چند برس قبل تک صرف ایک دو لاکھ روپے ٹیکس دیا کرتے تھے، اُنہوں نے سال 2019میں تقریباً 98لاکھ روپے ٹیکس دیا، جو بہت اچھی بات ہے۔ وزیراعظم کے ٹیکس سے اگرچہ یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہے کہ خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد ایسا کون سا بزنس کیا ہے جس سے اُنہیں اتنا بڑا منافع ہوا کہ اپنے ماضی کے برعکس بہت زیادہ ٹیکس دیا۔ خان صاحب تین سو کنال کے گھر میں ضرور رہتے ہیں لیکن اُن کا مالی طور پر شریف خاندان اور زرداری خاندان سے کوئی موازنہ نہیں، جس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری ٹیکس دینے میں عمران خان سے کیوں پیچھے ہیں؟ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اِس سال کوئی 42یا 45 لاکھ رویے ٹیکس دیا جو گزشتہ سال سے بہت کم ہے، کیوں کہ ایک سال قبل اُنہوں نے کوئی 22 کروڑ روپے ٹیکس دیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اُن کا کیا بزنس تھا کہ 22کروڑ ٹیکس دیا لیکن ایک سال بعد اُن کا ٹیکس بہت ہی کم ہو گیا؟

خسرو بختیار سمیت ایسے وفاقی وزیر بھی ہیں جو ارب پتی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ٹیکس اتنا کم جمع کراتے ہیں کہ کوئی یقین نہیں کر سکتا۔ جب عمومی طور پر حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ رجحان نظر آتا ہے کہ وہ ٹیکس کم بلکہ بہت ہی کم دیتے ہیں، وہیں کچھ ایسے ممبرانِ اسمبلی بھی ہیں جنہوں نے اچھا خاصا ٹیکس دیا۔ سب سے زیادہ ٹیکس پی ٹی آئی کے ایم این اے نجیب ہارون نے 14کروڑ 7لاکھ 49ہزار 768روپے جمع کرایا، اُن کی آمدن ایک ارب 87کروڑ 66 لاکھ 3ہزار 573روپے تھی، طلحہ محمود نے 3 کروڑ 22لاکھ 80ہزار 549روپے، شیخ فیاض الدین نے 2کروڑ 81لاکھ 70ہزار 518روپے، شیخ علائوالدین نے 2کروڑ 8لاکھ 73ہزار 316روپے، ممتاز علی نے دو کروڑ 96لاکھ 78ہزار697روپے ٹیکس دیا۔پارلیمنٹ کے ممبران کی ٹیکس ڈائریکٹری کو دیکھ کر اس امر کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ ایف بی آر کو ہر حال میں حکمرانوں اور ممبرانِ اسمبلی کے ٹیکس ریٹرنز کا آڈٹ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ٹیکس چوری کا رجحان ختم ہو۔ جب حکمران، سیاسی لیڈر اور پارلیمنٹیرین ٹیکس کم دیں گے تو پھر عوام سوچیں گے کہ وہ کیوں ٹیکس دیں اور یہی پاکستان کا المیہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس دینے والوں کی شرح سب سے کم ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس موقع پر زور دیا کہ ممبرانِ اسمبلی پورا ٹیکس دیں۔ حکومت اور وزیر خزانہ کو بیان بازی تک محدود رہنے کی بجائے عملی اقدامات اُٹھانے چاہئیں اور ٹیکس لینے کا سلسلہ حکمرانوں اور پالیمنٹیرینز سے شروع کرنا چاہیے تاکہ ایک مثبت پیغام عوام تک جائے اور ہماری تاجر برادی اور دولت مند طبقہ میں بھی ٹیکس دینے کا رجحان پیدا ہو۔ ہماری سیاسی قیادت اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں اگر سب ٹیکس نہیں دیں گے تو ہمارا ادھار لے لے کر گزارا کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ حکومت پاکستان اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر روز تقریبا چودہ ارب روپے کا قرض لے رہی ہے۔ ایسے ملک نہیں چل سکتا۔