لاہور(ویب ڈیسک) 1996ء میں اُس وقت کے چینی صدر جیانگ زیمن نے پاکستان کا دورہ کیا‘ اس زمانے میں پاکستان اور چین کی اقتصادی حالت تقریباً ایک جیسی تھی۔ چینی صدر کے اعزاز میں پاکستانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔….

مشترکہ اجلاس کے سامنے اپنے خطاب میں چینی صدر نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ نامور کالم نگار امتیاز گل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔!!! پہلے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے پھرچاہے دنیا سے جو بھی مطالبہ کرے دنیا کو مجبوراً سننا ہی پڑے گا….

(ان کا اشارہ مقبوضہ کشمیر کی طرف تھا) کیونکہ یہ عام فہم ہے کہ بات طاقتور کی سنی اور مانی جاتی ہے۔آج اس بات کو تقریباً 26سال ہوگئے ہیں اور دیکھئے کہ چین کہاں کھڑا ہے جبکہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں ابھی تک قید ہے۔اگر معاشی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان 80کے دہائی تک تیز ترین ترقی کرنے والے چند ممالک میں شامل تھا….

۔ ہمارا ملک پہلی دفعہ آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے کیلئے 1972ء میں گیا اور تب سے آج تک تقریباً 20دفعہ جاچکا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا کوئی برائی نہیں لیکن ایک یا دو دفعہ جانے کے بعد ممالک ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے اس طرح کے اداروں پر انحصار کم سے کم تر ہوکر ختم ہوجائے۔ پاکستان تقریباً ہر قدرتی دولت سے مالا مال ہے‘کسی چیز کی کمی نہیں‘ اگر کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ ہے قیادت جس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مالی 2020-21ء میں پاکستان کی معاشی ترقی صرف 3.9فیصد رہی جبکہ توقع کی جارہی تھی کہ یہ 4فیصد ہوگی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی مالی سال 2020-21ء میں 3.9فیصد کی بجائے 5.37فیصد رہی جو کہ

گزشتہ 14 برس میں سب سے زیادہ ہے۔مالی سال 2021ء میں افراطِ زر کی شرح 10.7فیصد سے کم ہوکر 8.9فیصد رہی‘ خدمات کی مد میں پاکستان نے ترقی کی جبکہ زرعی پیداوار میں کمی آئی‘جس میں سرفہرست کاٹن ہے جس کی پیداوار میں 30فیصد کمی آئی۔ مالی سال 2021ء میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 1.7فیصد سے کم ہوکر 0.6فیصد رہ گیا

جبکہ مجموعی طورپر ادائیگیوں کا توازن 1.9فیصد مثبت رہا جو کہ خوش آئند ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق سب سے زیادہ ترقی مالدیپ کی رہی جو کہ 18فیصد تھی‘ اس کے بعد بھارت کی 10فیصد‘ بنگلہ دیش کی 5.5فیصد‘ پاکستان 3.9فیصد (وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر نے پاکستان کی معاشی ترقی 5.37فیصد قرار دی ہے )‘ سری لنکا 3.4 فیصد جبکہ نیپال کی 2.3فیصد رہی۔کورونا وبا نے تقریباً پورے دنیا کے معاشی صورتحال کو متاثر کیا

اور ظاہر ہے پاکستان بھی اس وبا سے متاثر ہوا۔ اس دوران پاکستانی قیادت نے جس طرح حالات کو قابو میں رکھا اس کی دنیا کے مختلف ممالک اور اداروں نے تعریف کی۔دی اکانومسٹ نےGlobal Normalcy Index کے نام سے 50 ممالک پر مشتمل ایک لسٹ جاری کی ہے

جس میں ان ممالک کو ترتیب وار رکھا گیا ہے جنہوں نے کورونا وبا کے دوران اپنے معاشی صورتحال کو بہتر طور پر سنبھالا۔ اس لسٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جس نے کورونا وبا کے دوران معاشی اور وبائی صورتحال کو اس نہج پر نہیں پہنچنے دیا جس نہج پر اٹلی‘ امریکہ‘ برطانیہ اور بھارت پہنچ گئے تھے۔ اکانومسٹ نارملسی انڈیکس میں جہاں

پاکستان دوسرے نمبر پر ہے وہاں امریکہ 25ویں نمبر‘ بھارت آٹھویں نمبر‘ آسٹریلیا 38ویں نمبر جبکہ برطانیہ 39ویں نمبر پر ہے۔ حیران کن طور پر اس لسٹ میں مصر پہلے نمبر پر ہے‘ جس نے سب سے بہتر طور پر وبائی اور معاشی صورتحال کو سنبھالا۔مصر نے جس طرح عرب سپرنگ کے بعد اپنے معاشیات کو قابو میں کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ اگر مصر کی ماضی قریب پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ وہاں کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے لیکن باقاعدہ پلاننگ اور ویژن سے آج اس انڈیکس میں مصر پہلے نمبرپر آگیا ہے۔چند سال پہلے‘ مصر 15 سال کے وقفے کے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہوا اور صرف اس حقیقت کی بنیاد پر مصر میں ایڈجسٹمنٹ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہونی چاہیے تھی کیونکہ ہم عادی قرضدار ہیں۔ مصر میں مالیاتی بے قاعدگیاں بہت زیادہ تھیں۔مالیاتی خسارہ مالی سال 2014ء میں 16.5فیصد تک بڑھ گیا۔ایک اور واضح فرق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تھا۔ مصر میں ان پر سبسڈی دی جاتی تھی۔ 2016ء میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اوسطاً 35فیصد اضافے کے بعد بھی مصر میں ٹیکس کی قیمت کا تناسب 56فیصد تھا۔ مصر بین الاقوامی تیل کمپنیوں کا 6ارب ڈالر کا مقروض تھا جو آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہونے کے وقت تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے 3.5ارب ڈالر رہ گیا۔ مختلف قسم کے معاشی ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں چند ہی سال میں مہنگائی اور غربت کو ہوا ملی‘ قیمت سے لاگت کا تناسب اب 85 سے90 فیصد کے آس پاس ہے۔

پاکستان کو کسی ایسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہے تاہم 2016ء میں مصر میں بجلی کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور یہاں شاید 25 فیصد ایڈجسٹمنٹ جلد ہو جائے گی۔ مصر میں توانائی اور مالیاتی بحران کی حالت پاکستان سے بھی بدتر تھی اور چونکہ وہاں بھی کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں اس لیے آئی ایم ایف کی غیر موجودگی میں زیادہ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت تھی۔مصر میں قرضوں کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا جیسا آج پاکستان میں ہے۔ آئی ایم ایف کے لیٹر آف کمفرٹ کی وجہ سے زیادہ قرضہ لیا گیا تھا۔دوسرا عنصر جو پاکستانیوں کے لیے زیادہ پریشان کن ہو سکتا ہے وہ ہے مصر میں چند سال قبل کرنسی کی اچانک اور بہت زیادہ ایڈجسٹمنٹ۔ خدشہ ہے کہ پاکستان میں بھی اس کی نقل ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام سے پہلے مصر کی حقیقی مؤثر شرح مبادلہ 130تک چلی گئی اور دوبارہ اوپر جانے سے پہلے کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے قدرے نیچے آگئی تھی۔ بعد میں کرنسی کی قدر میں کمی 65‘70کی سطح پر چلی گئی اور 2018ء میں یہ 85کے قریب تھی۔پاکستان میں کرنسی کی 25فیصد کمی کی وجہ سے نومبر 17ء میں 124سے کم ہو کر فروری 19ء میں 103پر آ گئی‘ لیکن بہت زیادہ ایڈجسٹمنٹ کی ضمانت نہیں دی جاتی ہے۔ اگر لچکدار شرح مبادلہ اسے 70‘80کے قریب لے جائے تو کیا ہوگا‘ یہ سوچ پریشانی کا باعث ہے۔آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد مصر کو سب سے بڑا مسئلہ جس کا سامنا کرنا پڑا وہ بلند افراطِ زر یعنی مہنگائی تھا۔ افراطِ زر تقریباً 30فیصد تک پہنچ گیا اور کھانے کی قیمتیں ایک موقع پر 40فیصد تک پہنچ گئیں لیکن آئی ایم ایف کی غیر موجودگی میں ہائپر افراط زر کا معاملہ ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ وینزویلا یا زمبابوے میں ہوا ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں 25فیصد تک بڑھ گئی تھیں‘ اس بار کرنسی کی قدر میں کمی کے افراطِ زر کے اثرات کم ہیں۔مصر میں آئی ایم ایف کی طرف سے غریبوں کی مدد کے لیے بفرزون بنائے گئے تھے کیونکہ سبسڈی میں کمی کی گئی تھی لیکن یہ کافی ثابت نہیں ہوئے اور ملک میں غربت کا مسئلہ بڑھتا چلا گیا۔ ورلڈ بینک کے مطابق بعض شہروں کی ایک بہت بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پروگرام سے پہلے 27.8فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔2016ء میں بہترین اصلاحات اور بہتر قیادت کی مدد سے آج مصر کی معاشی ترقی کی رفتار 7.7فیصد ہے‘جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں 7.3فیصد کمی آئی ہے۔ مصر کی تقریباً 30فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ اگر معاشی ترقی اسی رفتار سے جاری رہی تو وہ دن دور نہیں کہ اس شرح میں بھی کمی آئے گی۔

READ MORE ARTICLES…