لاہور(ویب ڈیسک)اکیسویں صدی کو اکثر ایشیا کی صدی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ایشیا پیسیفک خطہ عالمی سیاست کا مرکز بن چکا ہے۔ اس خطے میں کئی ریاستوں نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے …..

کیونکہ ان ریاستوں نے انسانی ترقی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ نامور کالم نگار ڈاکٹر حسن عسکری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔!!!تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے پُرکشش جگہ بن گئی ہیں۔ بڑی طاقتیں ان کے ساتھ اقتصادی تعامل اور شراکت داری کے لیے نیٹ ورکنگ کر رہی ہیں تاکہ ان کے مشترکہ مفادات کو ان کے مخالفین کے قبضے سے بچایا جا سکے….

۔دو اہم پیش رفتوں نے ایشیا کی صدی کے تصور کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلی‘ ایشیا کی کچھ ریاستوں نے پچھلی تین دہائیوں کے دوران غیرمعمولی سماجی و اقتصادی ترقی کی ہے۔ ان ریاستوں میں جاپان، چین، جنوبی کوریا، ملایا اور سنگاپور شامل ہیں۔ خطے کی کچھ ریاستیں اپنی معیشتوں کی تعمیر کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔……

یہ تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن اور ویتنام ہیں۔ ان کی کامیابیوں کا سہرا ان کی انفرادی کاوشوں کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر ہونے والی پیشرفتوں کے سر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ ان کی توجہ کا ارتکاز علم اور ٹیکنالوجی کے فروغ، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معیارِ زندگی میں بہتری کے ذریعے انسانی ترقی پررہا ہے……

۔ قانون کی حکمرانی اور آزاد منڈی کی معیشت اپنانے پر زور دیا گیا ہے جس میں اشیا، خدمات اور ریاست کی حدود میں لوگوں کی آسان نقل و حرکت پر خصوصی توجہ ہو۔ ان ریاستوں نے ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا۔ علاقائی سطح پر علاقائی تعاون اور باہمی اقتصادی انحصار کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ان ریاستوں نے ریاست کے اندر اور بین الریاستی سطح پر نسلی یا علاقائی تنازعات کو بھی ختم یا حل کیا ہے۔

ان حکمت عملیوں نے آہستہ آہستہ اس خطے کو سرمایہ کاری، تجارت اور تکنیکی جدت طرازی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ دوسرا عامل جس نے ‘ایشیا کی صدی‘ کے تصور کو تقویت بخشی‘ ایک اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر چین کا عروج ہے۔ چین نے سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت کاری اور اقتصادی ترقی میں بڑی پیشرفت کی ہے۔ اس نے زراعت کو مضبوط کیا اور غربت پر قابو پایا۔ چین تجارت اور سرمایہ کاری کے تحت اقتصادی رابطوں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے

۔ اس نے نہ صرف امریکہ سمیت کچھ مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کی بلکہ مغربی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو چین میں اپنے مینوفیکچرنگ اور پیداواری یونٹس لگانے کی ترغیب بھی دی۔چین کا سب سے قابل ذکر منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ہے جو تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے سڑکوں، ریلویز اور سمندری رابطوں کے ذریعے مختلف براعظموں کو جوڑتا ہے۔ اس نے افریقی ریاستوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔

چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس شاندار کامیابی نے ایشیا پیسیفک خطے‘ خصوصاً جنوبی چین کے سمندری علاقے کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے‘ تاہم چین کے عروج نے امریکہ کی مخالفت کو بھی جنم دیا ہے جو چین کو اثرورسوخ اور اقتصادی و فوجی برتری کے عالمی مقابلے میں ایک حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔ کچھ تجزیہ کار ‘ایشیا کی صدی‘ کے بجائے ‘چائنا سینچری‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں کیونکہ چین کی ٹیکنالوجی، سائنس،

معیشت، تجارت اور فوجی طاقت میں پیشقدمی جاری ہے۔ یوں شمالی امریکہ اور یورپ پر مبنی عالمی سیاست سے توجہ ایشیا پیسیفک اور جنوب مشرقی ایشیا سے متعلق نئی عالمی سیاست کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیںدیگر جگہوں پر مقامی اور علاقائی مسائل اور بین الاقوامی دہشت گردی بھی بین الاقوامی سطح پر توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ایک اور اہم تبدیلی واحد سپر پاور کے طور پر امریکی دور کا تقریباً اختتام ہے۔ امریکہ بدستور سب سے بڑی معیشت اور دنیا کی مضبوط ترین فوجی طاقت ہے …..

تاہم دوسری جگہوں پر واقعات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی اس کی صلاحیت میں کمی آئی ہے کیونکہ یورپی یونین، جاپان، چین، روس اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے بین الاقوامی نظام کی کامیاب معیشتوں میں طاقت کے مختلف مراکز ابھرے ہیں۔ امریکی کامیابی کا انحصار کسی مسئلے میں متعلقہ طاقت کے مرکز سے حمایت حاصل کرنے پر ہے۔ریاستہائے متحدہ اس وقت اس پالیسی پرعمل پیرا ہے جسے Asia Pivot Policy کہا جاتا ہے

امریکہ ایشیا کی ریاستوں کیساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے شراکت داری قائم کررہا ہے اور خطے میں اپنی سفارتی اور اقتصادی موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے جنوب مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسیفک خطے کی بیشتر ریاستوں کے ساتھ پہلے ہی اچھے ورکنگ ریلیشنز ہیں۔ امریکہ کی اس خطے میں فوجی موجودگی بھی ہے۔ خطے میں اپنے معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کے علاوہ، امریکہ کے پاس اپنی ایشیا پائیووٹ پالیسی میں ایک اضافی ایجنڈا بھی ہے: یہ اس خطے اور دیگر خطوں میں چین کی سفارتی،

اقتصادی اور فوجی توسیع کو روکنا چاہتا ہے۔ اس نے آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کیساتھ سکیورٹی انتظامات کیے ہیں۔ اس مقصد کیلئے امریکہ کے آگے بڑھنے کیساتھ ہی بھارت نہ صرف اس لیے متعلقہ ہو جاتا ہے کہ اسکی سرحد چین کے ساتھ ملتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ ابھرتی ہوئی معیشت ہے جو امریکہ کی ایشیا پالیسی کے حوالے سے جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرسکتی ہے۔ایشیا پائیووٹ پالیسی کے باعث پاکستان میں امریکہ کی مثبت دلچسپی میں کمی آئی ہے۔ اگست 2021 میں افغانستان سے اس کے نکلنے کے بعد یہ کمی اور بھی واضح ہے۔ ا

مریکہ کا افغانستان میں اب بھی ایک مفاد ہے۔ یہ کہ چین اور روس خود کو افغانستان میں ایک سرگرم طاقت کے طور پر مستحکم نہ کر سکیں‘ چنانچہ امریکہ پاکستان کو پاک چین اقتصادی راہداری سے روکنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس منصوبے کو ترک کردے کیونکہ زیادہ تر امریکی ماہرین کے خیال میں سی پیک سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پاکستان پر قرضوں کا بھاری بوجھ پڑے گا۔ امریکہ اس منصوبے کے خلاف ہے کیونکہ یہ گوادر کے راستے چین کو سمندری رسائی فراہم کرتا ہے جو مغربی چین کی معیشت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس سے چین کو خلیجی خطے اور مشرق وسطیٰ تک براہ راست رسائی ملے گی۔ ایران نے سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو ایران کو چین کیلئے زمینی تجارتی راستہ فراہم کرے گا۔دسمبر 2021 میں صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں ڈیموکریسی سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت اور فروری 2022 کے پہلے ہفتے میں سرمائی اولمپکس کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کا بیجنگ کا دورہ‘ ان معاملات کا واشنگٹن میں نوٹس لیا گیا ہے۔

امریکی دباؤ کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سی پیک منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے۔ اس سے چینیوں کو بھی خوشی ملے گی جو اکثر بیوروکریٹک سستی اور پاکستان میں یکطرفہ فیصلوں اور ان پر عمل درآمد سے مایوس ہوتے ہیں تاہم چین پر قابو پانے کی امریکی کوششیں اس کے دیگر مسائل جیسے یوکرائن پر روس کے ساتھ سفارتی جھگڑے اور ایران کے ساتھ جوہری مسائل کے علاوہ یورپی ریاستوں بالخصوص فرانس کی مکمل حمایت کی عدم دستیابی کی وجہ سے معتدل ہو جاتی ہیں۔ اس سے پاکستان کیلئے سی پیک منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانے کیلئے کچھ گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا اور پاکستانیوں کیلئے نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ایشیا کی صدی اور ایشیا پائیووٹ پالیسیاں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے نئے چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔

READ MORE…….