”یہ ایک کلمہ دنیا کے تمام غم ،تکلیف ،مصیبت کا علاج ہے۔“

”یہ ایک کلمہ دنیا کے تمام غم ,،تکلیف ،,مصیبت کا علاج ہے۔”

سائنس و ٹیکنولوجی کے اس دور میں کیا کویٴ ایسا قید خانہ بنا سکتا ہےجو مچھلی کے پیٹ میں ہو اور مچھلی قیدی کو لئے ہوئے ہزاروں میٹر پانی کے نیچے چلی جائے جہان اندھیرا ہی اندھیرا ہو رات کا اندھیرا سمندر کی گہرایٴ کا اندھیرا,,,,

اور پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور جہاں نہ ہوا ہو نہ آکسیجن لیکن قیدی پھر بھی صحیح سلامت اور زندہ رہے۔جی کویٴ نہیں ۔ ایسا قید خانہ صرف ہمارا رب ہی بنا سکتا ہے کیونکہ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًااللہ ہر چیز قدرت رکھتا ہے۔

اور یہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے،اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو (عراق) موصل کے علاقے نینویٰ والوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ آپ اپنی قوم کو ایمان و توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن آپؑ کی قوم آپؑ کی تکذیب کرتی رہی اور کفر و عناد پر اڑی رہی,,,

۔ ایک مدت کی تبلیغ کے بعد جب آپؑ بالکل مایوس ہوگئےکہ قوم ایمان لانے والی نہیں اور عذابِ الٰہی کا وقت قریب آگیا تو آپ اپنی قوم کو تین دن کے بعد عذابِ الٰہی کی وعید سنا کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نکل گئے۔اور مشکل سے دوچار ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا……

۔فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو اور مچھلی والے (یونس علیہ اسلام) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ۔مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وه غصہ سے چل دیا۔

اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔لیکن حضرت یونس علیہ السلام کو جوں ہی احساس ہوا کہ اُن سے غلطی ہو گئی ہے ، انہوں نے اپنے آپ کو ملامت کیااور مچھلی کے پیٹ کے اندھرے قید خانے سے اللہ کو پکارا ۔فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ بالآ خر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں اپنے نفس پر ظلم کیا۔نوٹ کیجئے۔؎

حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی قید خانہ سے رہائی کیلئے توحیدِ باری تعالیٰ کا ہی سہارا لیا اور اللہ کی ہی پاکی بیان کی ۔۔۔۔ کسی نبی ولی یا اللہ کے کسی برگزیدہ بندے کو نہیں پکارا اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کا وسیلہ نہیں پکڑا۔حضرت یونس علیہ السلام نے کہا لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ یعنی لَّا إِلَٰهَ إِلَّا اللہ جو کہ کلمہٴ توحید ہے اور کہا

سُبْحَانَكَ یعنی سبحان اللہ جو کہ ا لله تعالی کی تسبيح ہے اور پھر إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اپنے غلطیوں کا اقرار و اعتراف اِن لفظوں میں کیا۔کہ بیشک میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں ۔۔ اس جملے میں اِن باتوں کا اعتراف ہے کہ اے اللہ میں نے تیرے حکم کا انتظار نہ کرکے تیرا کچھ نہیں بگاڑ,,,,

ا اور مجھے اس قید میں ڈال کر تو نے مجھ پر کویٴ ظلم نہیں کیا کیونکہ تو اس سے پاک ہے کہ کسی پر ظلم کرے یہ تو ہم انسان ہی ہیں جو جلد باز ہیں نا شکرے ہیں اور بے صبرے ہیں اور اپنے ہی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔تب ہمارے غفور الرحیم رب نے نہ صرف اپنے نبی کی دعا قبول کی

اور انہیں غم (قید) سے نجات بخشی بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ جو بھی مومن بندہ یہ دعا مانگے گا اُسے نجات ملے گی:فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

READ ALSO…….

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں