شہباز شریف کو کلین چٹ دلوا کر میدان میں “ان ” کرنے کی تیاریاں ،

شہباز شریف کو کلین چٹ دلوا کر میدان میں ”ان ” کرنے کی تیاریاں.

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حامد ولید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔شہباز شریف مسٹرکلین ثابت ہوتے جا رہے ہیں، نون لیگ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں سرخرو ہوچکی ہے، بلاول بھٹو اچانک امریکہ چلے گئے ہیں، عمران خان کا بدعنوانی کا بیانیہ دم توڑتا جا رہا ہے،,,,,

اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں تاثر بنتا جا رہا ہےکہ وہ نیوٹرل ہوتی جا رہی ہے، میڈیا پر حکومت کے لتے لینے کا رواج عام ہونا شروع ہو گیا ہے، حکومتی وزراء کو نہ صرف ان کی بری کارکردگی بلکہ احتساب کے نام پر فراڈ کے ضمن سرعام نتقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے,,,,,,,

، کہیں لوگ پیپلز پارٹی کو جوائن کر رہے ہیں تو کہیں نون لیگ فیورٹ جماعت کے طور پر نظر آرہی ہے۔اپوزیشن بدنامی کے اس قعر مذلت سے نکل آئی ہے جو اب سے تین چار برس پہلے اس کا مقدر سمجھی جا رہی تھی، حکومتی پارٹی کے بیانئے میں جان نہیں رہی ہے اور لوگوں نے اپنی بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔.

ہر کوئی پی ٹی آئی قیادت کو کوس رہا ہے اور ٹی وی چینلوں پر چلنے والے عوامی سروے آواز خلق کا جیتا جاگتا ثبوت بنتے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی ایک ناآزمودہ جماعت کے طور پر لی جا رہی تھی۔ اس کے ووٹروں سپورٹروں کا ایک ہی موقف تھا کہ ایک بار عمران خان کو آزما کر دیکھنا چاہئے

کیونکہ وہ عوام کے دل کی باتیں کر رہے ہیں۔ تاہم تین برسوں کی کارکردگی سے معلوم ہوا کہ وہ توقع سے بھی بڑھ کر ناآزمودہ ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی مخالف کیمپ کے ووٹر سپورٹر تو 2018کے انتخابات سے قبل ہی انہیں ایک بے کار کی شے سمجھتے تھے,,,,,

اور عمومی خیال تھا کہ عمران خان کا حال بھی مرحوم ایئرمارشل اصغر خان ایسا ہوگا کہ جلسے بڑے بڑے اور ووٹ ایک بھی نہیں، تاہم چشم فلک نے دیکھا کہ کراچی سے لے کر خیبر تکعمران خان کے نام کا ڈنکا بجا تو پی ٹی آئی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت کے طور پر جیت کر سامنے آگئی۔ لیکن اب تین سال بعد ملک میں جس طرح سے پانسہ پلٹ رہا ہ

اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اب سے تین سال قبل اپوزیشن، خاص طور پر نون لیگ کیخلاف بدعنوانی کے نام پر جن انتقامی کاروائیوں کا آغاز ہوا تھا، وہ فطری وقت لے کر اپنا تاثر کھوتی جا رہی ہیں۔ عدالتی کاروائیاں علیحدہ سے ضابطے کا چکر پورا کرکے پایہ تکمیل تک پہنچتی جا رہی ہیں ,,,,,,

اور عدالتوں سے منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزامات کی جانچ پڑتال ہو کر فیصلہ آنا شروع ہو گئے ہیں، اپوزیشن قیادت کی ضمانتیں ہو چکی ہیں اور ان کے خلاف الزامات کے میڈیا ٹرائل کے بعد اب عدالتی ٹرائل کا آغاز ہوچکا ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا شروع ہوگیاہے.

۔ اس صورت حال میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن قیادت کے خلاف جس تاثر کو ابھارا گیا تھا اور عوام پراپیگنڈے سے متاثر ہوکر جس پر یقین کر لیا تھا، دم توڑنے لگے ہیں۔ چنانچہ جوں جوں عدالتوں سے اپوزیشن کو کلین چٹ مل رہی ہے توں توں حکومت کے لئے ہتھیلی پر سرسوں جمانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری اہم پیش رفت ملک میں مہنگائی کا عام ہونا ہے

جس کی وجہ سے عوام کو ریلیف کا قطرہ تک میسر نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت بار بار بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہے اور حکومت ایک طرف تو احساس کفالت پروگرام کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کو سنبھالا دینے کی کوشش کرتی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط

سے دب کر ملک کے متوسط طبقے کی جان لینے کے درپے نظر آتی ہے۔ چنانچہ جو کچھ وہ احساس کفالت کے نام پر دیتی ہے، ٹیکسوں، بجلی اور گیس کے مہنگے بلوں اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی شکل میں واپس لے لیتی ہے اور نتیجہ صفر کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔……

تیسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ افغانستان کے پرامن حل کے بعد پاکستان خطے میں سب سے زیادہ خطرات میں گھرا ملک محسوس ہونے لگا ہے۔ امریکہ نے آنکھیں پھیرلی ہیں تو چین بھی اپنے وسیع تر مفادات کے کھیل میں الجھا ہوا ہے، ایسے میں سعودی عرب سے ادھار تیل ملنے کی خبر جہاں سکھ کا سانس دے رہی ہے

وہاں یہ بات بھی ثابت کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کو 2018والی صورت حال میں واپس لے گئی ہے بلکہ سچ پوچھئے تو حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر ہو چکے ہیں کیونکہ تب تک وبا نہیں پھوٹی تھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ چاہنے کے باوجود بھی پی ٹی آئی حکومت کو اپنے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھومنے کی اجازت نہیں دے پارہی ہے

کیونکہ اب اسے خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ عوام پی ٹی آئی کو کوسنے کے بعد صورت حال کی خرابی کی ذمہ داری اب ان پر ڈالنا شروع کردیں گے۔ ایسے میں پلان بی پر کام شروع ہو چکا ہے۔ شہباز شریف کو مسٹر کلین قرار دے کر دراصل ایک اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کو بنانے سنوارنے کا عمل شروع ہو چکا ہے,,,,,,

جبکہ بلاول بھٹو علیحدہ سے ہاتھ پاؤں مارتے نظر آرہے ہیں۔ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی قسمت آزمائی کے چکر میں کہیں رابطے میں ہوں لیکن حالات اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ مائنس نواز شریف نون لیگ کو قبول کرنے کا رجحان ہماری مقتدرہ میں بڑھتا جا رہا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کب بلاول بھٹو اور عمران خان ایک سٹیج شیئر کرکے اگلے انتخابات میں اترنے کا اعلان کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ کیا شہباز شریف لندن کی عدالتوں کے فیصلے کی بنا پر عوام کے جم غفیر اپنے جلسوں میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور مجمع لگانے کے لئے نون لیگ کو نواز شریف یا مریم نواز کی ہی ضرورت پڑی تو شہباز شریف کیونکر مقتدرہ کے اشاروں کی زبان پر آگے بڑھ سکیں گے؟

read more…………

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں