مکافات عمل کی کہانی پھر دہرائے جانے کے قریب : – PAKISTAN PRESS

مکافات عمل کی کہانی پھر دہرائے جانے کے قریب : – PAKISTAN PRESS

مکافات عمل کی کہانی پھر دہرائے جانے کے قریب :

آرٹیکلز


لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار انجم فاروق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میرے پاس مکافاتِ عمل کی ایک کہانی اور بھی ہے۔ اس کہانی کا آغاز 30 اکتوبر 2011ء کو ہوا۔ ٹھیک دس سال قبل حکمران جماعت نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا اور وفاقی اور پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

اس وقت کے حکمرانوں کی نااہلی کا نوحہ پڑھا اور بدعنوانی کی داستانیں بیان کیں۔ مہنگائی اور بدانتظامی پر حکمرانوں کے لتے لیے۔ یہ سلسلہ 2018ء تک ایسے ہی جاری رہا۔ حکومتوں کے خلاف دھرنے بھی دیے گئے اور مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کا مذاق اُڑایا گیا۔ سڑکیں بھی بلاک کی گئیں اور شہر بھی بند کیے گئے۔ سرکاری املاک پر دھاوا بھی بولا گیا اور اعلیٰ عہدیداران کو گریبان سے پکڑنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ سول نافرمانی کی کال بھی دی گئی اور بجلی کے بل بھی جلائے گئے۔ قانون بھی توڑا گیا اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔ پولیس کو وارننگز بھی دی گئیں اور ضرورت پڑنے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ عوام کے جذبات کو اشتعال بھی دلایا گیا اور الزام تراشی کی دکان بھی سجائی گئی۔ سوشل میڈیا کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال بھی کیا گیا اور بدزبانی کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ جمہوری اقدار کو داغدار کیا گیا، حکومت کے خلاف برسرپیکار کارکنان کو ہلہ شیری بھی دی گئی۔ نظام انصاف پر عدم اعتماد کیا گیا اور پارلیمنٹ کی بے توقیری بھی کی گئی۔ اپنی دیانت داری کے دعوے بھی کیے گئے اور جی بھر کر مخالفین کی تذلیل بھی کی گئی۔اس کہانی میں کئی

موڑ آئے مگر یہ کہانی رکی نہیں۔ مخالفین کے خلاف بولتے بولتے یہ جماعت ایک دن خود برسر اقتدار آ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مکافاتِ عمل کا شکار ہو گئی۔ اسے ہر اس گلی سے گزرنا پڑا جہاں اس نے خود کنکر پھینکے تھے۔ اسے ہر اس راستے پر چلنا پڑا جہاں اس نے خود کانٹے بوئے تھے۔


اسے اقتدار میں آئے ابھی نوے دن بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کے خلاف وہی سلسلہ شروع ہو گیا جس کی ریت اس نے خود ڈالی تھی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسے نااہلی اور بدانتظامی کے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں اور مہنگائی پر اٹھنے والی آوازوں کا شور بھی سہنا پڑتا ہے۔ اسے دھرنوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جلسے جلوسوں کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس پر سچے جھوٹے الزام بھی لگتے ہیں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین اس پر ہنستے بھی ہیں اور الزام تراشی بھی کرتے ہیں۔ پرانے اور نئے حکمرانوں میں صرف ایک فرق ہے۔ ان کو غصہ زیادہ آتا ہے اور ان کے مخالفین کو

تھوڑا کم۔ یہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں اور دھرنوں کو برداشت نہیں کر پاتے۔ یہ سوشل میڈیا کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں اور سٹرکیں بلاک کرنے والوں کو پابند سلاسل۔ یہ ہر اس شخص کو ملک دشمن سمجھتے ہیں جو ان کا مخالف ہے۔ اب انہیں ریاست کی توقیر کا خیال بھی ہے اور حکومتی رٹ کی فکر بھی۔ یہ احتجاج کو اب جمہوری عمل سمجھتے ہیں نہ آئینی حق۔ یہ اب حکمران ہیں اور سب جانتے ہیں حکمران کی اَنا سب سے بڑی ہوتی ہے۔ عہدِ رواں کے حکمرانوں کو بھی اپنی اَنا بہت عزیز ہے۔ عوام کو خود سوچنا ہوگا کہ اب 30 اکتوبر 2011ء نہیں بلکہ 30 اکتوبر 2021ء ہے۔ دس برسوں میں سب کچھ بدل چکا ہے۔ سب آشکار ہو چکے ہیں۔ اب کوئی بھید بھید نہیں رہا۔ مکافاتِ عمل کی کہانی اپنے انجام کے قریب ہے۔یوں مکافات عمل سب کچھ اٹھا کر لے گیا۔۔سر پھرا سیلاب بستی کو بہا کر لے گیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں