لاہور(ویب ڈیسک)پہلے بگل بجا پھر مختصر سی پریڈ ہوئی۔ آنے والے مہمانوں نے رینجرز سے سلامی لی جن کا تعلق انڈیا سے تھا۔ اُن کا خیر مقدم کرنے والوں کا تعلق پاکستان سے تھا.

۔ اس کے بعد ایک تاریخی واقعہ رونما ہوا۔یہ بات ہے 17 جنوری 1961 کی۔ دونوں ملکوں کی تاریخ میں یہ دن کئی اعتبار سے یاد گار ہے۔ اس روز تین اہم اور غیر معمولی تاریخی واقعات رونما ہوئے۔پہلا واقعہ تو یہ تھا کہ,,

دونوں ملکوں نے اپنے اپنے زیر قبضہ سینکڑوں مربع میل کا علاقہ خالی کر دیا۔ پاکستان اور انڈیا جیسے دیرینہ حریفوں کے درمیان یہ پیشرفت غیر معمولی تھی۔ ایک ایسا معاہدہ جس پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کسی فریق کی طرف سے نہیں ہوئی……

۔اس روز رونما ہونے والا یہ دوسرا تاریخی واقعہ تھا۔ اُس غیر معمولی دن کا تیسرا واقعہ پاکستان رینجرز اور اس کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز کی طرف سے دونوں ملکوں کے مہمانوں کو دی جانے والی سلامی تھی۔ گویا یہ ایک ایسا خوشگوار منظر تھا جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ اختلافات اپنی جگہ اور رواداری اپنی جگہ

۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اختلافات کو نمٹنانے کا ایک انداز یہ بھی تھا۔12 جنوری 1960 کے روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر میں بتایا گیا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازعات طے پا گئے ہیں۔ یہ تنازعات اس ریڈکلف ایوارڈ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے جس نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحد کا تعین کیا..

۔دونوں ملکوں کے درمیان ان سرحدی تنازعات کی نوعیت کیا تھی؟اس موضوع پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی نے اپنی کتاب ’ظہور پاکستان‘ میں روشنی ڈالی ہے۔ چودھری محمد علی کو ریڈکلف ایوارڈ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا تھا۔انھوں نے لکھا ہے ’سرحدوں کا مسئلہ مشکلات اور فتنہ انگیز امکانات سے معمور تھا۔

کسی اور بات سے اتنا مناقشہ اور جذبات میں ہیجان پیدا نہیں ہوا تھا جتنا پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے۔ ہر صوبے میں خطِ تقسیم نے گنجان آباد علاقوں سے گزرنا تھا اور لاکھوں افراد کی قسمت پر اثر انداز ہونا تھا۔ اس خط نے ایک ہم آہنگ معیشت اور سڑکوں اور ریلوں کے واحد نظام مواصلات کو دو حصوں میں کاٹ دینا تھا۔‘پنجاب کا نقشہ۔ نقشے میں قدرے نمایاں خط سے پنجاب کی وہ تقسیم ظاہر کی گئی ہے جس کا اعلان باؤنڈری کمیشن نے کیا۔….

چوہدری محمد علی کے مطابق یہ تقسیم غیر منصفانہ تھی کیوںکہ یہ طے شدہ اصولوں کے منافی تھیپنجاب میں وسیع نہری اور برقابی نظام کا مسئلہ بھی تھا۔ جلد بازی اور بے اصولی سے کھینچا ہوا خط بے پایاں اقتصادی نقصان اور شدید مشکلات کا باعث بن سکتا تھا۔

ایسی صورت میں عین ممکن تھا کہ کئی ایک گاؤں کے لوگ خود تو بین الاقوامی سرحد کے اس پار ہوں اور اُن کے کھیت دوسری طرف ہوں۔ اس نوعیت کے لاتعداد مسائل پیدا ہونے کا امکان تھا۔‘چودھری محمد علی نے مزید لکھا ہے کہ ریڈکلف ایوارڈ نے پنجاب سے متعلق جو فیصلہ دیا اس میں مسلم اکثریت کے کئی علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بنائے گئے۔ ان میں فیروز پور کے علاوہ ضلع گرداس پور کی تحصیلیں گرداس پور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ انڈیا کی طرف چلی گئیں

۔ اسی طرح ضلع امرتسر کی مسلم اکثریتی تحصیل اجنالہ بھی پاکستان کو نہ مل سکی۔کانگریس فیروز پور کے حصول کے سلسلے میں کتنی بے چین تھی، بانیِ پاکستان نے اس کا ذکر جناح پیپرز میں کیا ہے۔ ان کے مطابق پنڈت نہرو نے ظہرانے کی ایک نشست میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے فیروز پور کے بارے میں بات کی۔ نہرو نے انھیں دھمکی دی کہ فیروز پور اگر پاکستان کو دیا گیا تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بن جائے گا۔ یوں لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے اور یہ شہر انڈیا کے حصے میں آ گیا۔چودھری محمد علی نے لکھا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد انھیں گورنر ہاؤس لاہور سے کچھ کاغذات ملے۔ ان دستاویزات کے مطابق بھی فیروز پور پاکستان کے حصے میں آیا تھا لیکن 12 اگست کو ریڈکلف کے ثالثی فیصلے کے تحت فیروز پور اور تحصیل زیرہ انڈیا کو دے دی گئیں۔وی پی مینن نے اپنی کتاب ’دی ٹرانسفر آف پاور ان انڈیا‘ میں تقسیم پنجاب اور ریڈکلف ایوارڈ کے بارے میں نسبتاً اختصار سے اظہار خیال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دو جون 1947 کو تقسیم ہند کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس کے اختتام پر وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ وہ تقسیم ہند کے سلسلے میں ایک تقریر کریں گے جو لندن میں ریکارڈ کی جائے گی اور پوری دنیا میں سنی جائے گی۔تین جون 1947 کو تقسیم ہند کے تاریخی اعلان سے ایک روز پہلے، وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زیر صدارت اجلاس جس میں محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، سردار بلدیو سنگھ اور دیگر موجود ہیںانھوں نے محمد علی جناح اور پنڈت نہرو سے درخواست کی کہ

ان کی تقریر کے بعد وہ بھی آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے نمائندوں کی حیثیت سے خطاب کریں۔ اس موقع پر نہرو کی تجویز پر انھوں نے سکھ نمائندے کی حیثیت سے سردار بلدیو سنگھ کی تقریر پر بھی آمادگی ظاہر کر دی تھی۔مینن کے مطابق باؤنڈری کمیشن کے اجلاسوں میں کانگریس کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کے بارے میں بڑے نپے تلے دلائل پیش کیے گئے۔ ان دلائل میں کہا گیا تھا کہ تقسیم پنجاب کے سلسلے میں سکھوں کے ثقافتی اور مذہبی جذبات کا احترام کیا جائے۔کانگریس کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ اس سلسلے میں درج ذیل امور بہر صورت پیش نظر رکھے جائیں:وی پی مینن کے مطابق سکھ نمائندے نے کانگریس کے ان مطالبات میں اپنے کچھ اضافی مطالبات بھی شامل کر دیے۔ سکھوں نے دریائے چناب کا سارا مشرقی علاقہ، لائل پور(موجودہ فیصل آباد)، منٹگمری (موجودہ ساہیوال) اور ملتان کے کچھ سب ڈویژن بھی انڈیا کو دینے کا مطالبہ کیا۔مینن نے لکھا ہے کہ سکھوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کانگریس کے صدر مسٹر کرپلانی نے وائسرائے کو ایک خط میں لکھا کہ ‘ھز میجسٹی گورنمنٹ کا منصوبہ ان (سکھوں) کے جذبات مجروح کرنے کا باعث بنے گا، اگر پنجاب میں ان کی نمایاں حیثیت کا مکمل طور پر خیال نہ رکھا گیا۔’کانگریس اور سکھوں کے مطالبات کا ذکر کرنے کے بعد انھوں نے تقسیم پنجاب کی تفصیل بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تقسیم کے نتیجے میں پنجاب کا 62 فیصد رقبہ اور 55 فیصد آبادی مغربی پنجاب یعنی پاکستان کے حصے میں آگئی۔

ان کے مطابق متحدہ پنجاب میں زیادہ آمدنی دینے والا یہی علاقہ تھا۔ اس کے مقابلے میں انڈیاکے حصے میں متحدہ پنجاب کے پانچ دریاؤں میں سے تین دریا آئے۔ ان دریاؤں میں بیاس، ستلج اور راوی کا اوپر کا حصہ شامل تھے۔اس کے علاوہ انڈیا کو ملنے والے علاقوں میں 13 اضلاع، جالندھر اور انبالہ ڈویژن سمیت امرتسر، گرداس پور اور لاہور کی کچھ تحصیلیں شامل تھیں۔وہ لکھتے ہیں کہ ’سکھوں نے لاہور کے نہ ملنے پر احتجاج کیا جب کہ مسلمانوں نے منڈٰی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور چند تصوراتی علاقے نہ ملنے پر احتجاج کیا۔‘وی پی مینن نے وضاحت نہیں کی کہ وہ تصوراتی علاقے کون سے تھے جن کے نہ ملنے پر مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ جناح پیپرز کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے فیروز پور ہو سکتا ہے جبکہ کچھ علاقوں کا ذکر چودھری محمد علی نے اپنی کتاب میں کیا۔وہ لکھتے ہیں کہ ’لیاقت علی خان نے انھیں ہدایت کی تھی کہ وہ وائسرائے کے دفتر کے ایک اہم افسر لارڈ اسمے تک محمد علی جناح کا پیغام پہنچا دیں۔ اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ ان کی اطلاع کے مطابق امرتسر اور جالندھر کے مسلم اکثریتی علاقوں کو انڈیا کو دیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ لارڈ اسمے نے ان اطلاعات کی تردید کر دی۔ اس پر چودھری محمد علی نے ان (اسمے) کے دفتر میں آویزاں ایک نقشے کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی۔‘چودھری محمد علی کے اپنے الفاظ میں ’میں نے

اسے نقشے کی طرف آنے کا اشارہ کیا تاکہ اس کی مدد سے میں اسے صورتحال سمجھا سکوں۔ پنجاب کے نقشہ پر پنسل سے ایک خط کھینچا ہوا تھا۔ یہ خط اُس سرحد کے عین مطابق تھا جس کی اطلاع قائد اعظم کو دی گئی تھی۔ میں نے کہا کہ اس کے بعد میری طرف سے کوئی وضاحت غیر ضروری ہے کیونکہ وہ خط پہلے ہی نقشے پر کھنچا ہوا تھا جس کے بارے میں میں بات کرتا رہا ہوں۔ اسمے کا رنگ زرد پڑ گیا۔‘چودھری محمد علی نے مزید لکھا ہے کہ پنجاب کی تقسیم سے متعلق طے شدہ اصول یعنی مذہبی اکثریت کو نظر انداز کرنے سے متعلق وی پی مینن اور وائس رائے کے ایک معاون میجر شارٹ کی دلیل یہ تھی کہ تقسیم کے فارمولے میں یہ تبدیلی مستقبل قریب میں ممکنہ خونریزی سے بچنے کے لیے کی جا رہی ہے۔چودھری محمد علی نے لکھا کہ انھوں نے ان ملاقاتوں میں واضح کر دیا تھا کہ اُن کے یہ اندازے درست نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ اندازے کتنے بے بنیاد تھے، ان کا اندازہ پنجاب میں قتل عام سے ہو گیا تھا۔یہ وہ پس منظر تھا جس کی وجہ سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بے چینی تھی۔ اس بے چینی کے اثرات دونوں حکومتیں بھی محسوس کرتی تھیں۔ یہی چیز دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لائی۔ یہی مذاکرات تھے جن کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا علاقوں کے تبادلے پر متفق ہوئے۔18 جنوری 1961 کے روزنامہ ’امروز‘ نے لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فیصلہ

پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان اور انڈیا کے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے درمیان ایک تاریخی ملاقات میں ہوا۔ یہ ملاقات دلی کے پالم ایئرہورٹ پر ہوئی تھی۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’شہاب نامہ‘ میں اس ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ شہاب لکھتے ہیں کہ اس ملاقات میں نہرو نے اپنے مہمانوں کی طرف سرد مہری کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے مہمان کی طرف مسکرا کر دیکھا اور نہ مناسب لباس پہنا۔شہاب کے مطابق نہرو سفید شیروانی، گاندھی ٹوپی اور بغیر جرابوں کے ایک چپل پہن رکھی تھی۔ رسمی دعا سلام کے بعد دونوں رہنما لاؤنج میں چلے گئے جہاں ان کے درمیان ایک گھنٹہ 40 منٹ تک ملاقات رہی۔ اس ملاقات میں ایوب خان نے انھیں مشترکہ دفاع کی پیش کش کی۔ جواب میں نہرو نے کہا کہ ان کے خیال میں ’نو وار ڈیکلیریشن‘ مناسب ہو گا۔ایوب خان نے مسئلہ کشمیر کے طے نہ ہونے تک انڈیا کی طرف سے عدم جارحیت کو بے معنی قرار دیا تو نہرو نے سردست مفاہمت کے فروغ اور سرحدی جھڑپوں سے بچنے کے لیے اقدامات پر زور دیا۔یہ وہی سرحدی جھڑپوں سے بچنے اور مفاہمت کے فروغ کا تصور تھا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا ایک نظام الاوقات طے ہوا۔ اس نظام الاوقات کے تحت چھ جنوری 1960 کو ایک ممتاز سکھ رہنما سردار سورن سنگھ جو بعد میں انڈیا کے وزیر خارجہ بھی بنے، لاہور پہنچے۔ انھیں لاہور پہنچنے پر گارڈ آف آنر دیا گیا۔سردار سورن سنگھ دو روز تک پاکستان میں رہے۔

پہلے روز لاہور میں ان کے پاکستانی حکام سے جامع مذاکرات ہوئے۔ اگلے روز وہ راولپنڈی پہنچے جہاں ایوب خان سے انھوں نے ملاقات کی۔ راولپنڈی پہنچنے پر انڈین وفد کا استقبال وزیر خارجہ منظور قادر نے کیا۔لاہور کے مذاکرات میں علاقوں کی ملکیت، دونوں جانب سے فوجی پکٹوں کی تعمیر اور پہرے وغیرہ سے متعلق قواعد و ضوابط طے کیے گئے۔ اس کے علاوہ دیگر تکنیکی امور طے کرنے کے لیے دو سب کمیٹیاں قائم کی گئیں۔انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر ہرمن بھان نے بتایا کہ مذاکرات کا ایک حصہ فوجی نقل و حرکت کے بارے میں بھی ہے۔ اس سلسلے میں فوجی حکام باہم بات چیت میں مصروف ہیں جس میں بنیادی اصولوں کا تعین کیا جائے گا۔اگلے روز یعنی آٹھ جنوری 1960 کو پاکستانی وفد لیفٹننٹ جنرل شیخ کی قیادت میں نئی دلی پہنچ گیا۔ دلی پہنچنے پر پاکستانی وفد کا استقبال ایک مرکزی وزیر کے ڈی مالویہ نے کیا۔ اس موقع پر اس وفد کو گارڈ آف آنر بھی دیا کیا گیا۔ اگلے روز دونوں ملکوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پا گیا۔پاکستان اور انڈیا میں اس معاہدے کی خبریں نمایاں انداز میں شائع ہوئیں۔ روزنامہ ’امروز‘ لاہور نے یہ خبر اس سرخی کے تحت شائع کی: ’پاکستان ایک اور انڈیا تین دیہات سے متعلق اپنے دعوے سے دست بردار ہو گیا۔‘دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کا عنوان درج ذیل تھا: ’مغربی پاکستان کے سرحدی تنازعات کے سلسلے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان معاہدہ۔‘معاہدے کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ اس سیکٹر میں پاکستان اور انڈیا

کے درمیان 325 میل طویل سرحد میں سے 252 میل کی ڈی مارکیشن ہو چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے 73 میل طویل سرحد کا واضح نہ ہونا تھا۔12 جنوری 1960 کو روزنامہ امروز میں سرحدی تنازعات پاکستان اور انڈیا کے وفود کے درمیان لاہور میں مذاکرات کے پہلے دور کی شائع ہونے والی تصویر۔ ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت لیفٹننٹ جنرل شیخ جبکہ انڈین وفد کی قیادت سردار سورن سنگھ نے کی اس کی وجہ باؤنڈری کمیشن کے چیئرمین سر سیرل ریڈ کلف کے ایوارڈ کی تشریح پر اختلاف سے تھا۔ اب اس معاہدے کے تحت امرتسر لاہور سرحد پر جن میں تحصیل قصور کے علاقے بھی شامل ہیں، پاکستانی علاقے سمجھے جائیں گے۔ ان علاقوں میں دیہہ سارجا مریا، رکھ ہردت سنگھ اور پٹھانکے شامل ہوں گے۔لاہور امرتسر سرحد پر جس میں کچھ علاقہ قصور کا بھی آتا ہے، چک لدھیکے انڈیا کی حدود میں شامل ہو گا۔ لاہور فیروز پور سرحد پر فیروز پور کے بارے میں طے پایا کہ ان اضلاع کی سرحدیں دریائے ستلج کے اصل راستے کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ اسی طرح فیروز پور منٹگمری کی سرحد کی ری الائنمنٹ پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا۔دونوں ملکوں کے درمیان خلیج کچھ (سندھ کا رن آف کچھ) کی سرحد کے معاملے میں اختلافات تھے۔ معاہدے میں طے پایا کہ اس سلسلے میں مزید معلومات جمع کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ مغربی پاکستان (پاکستانی پنجاب) اور مشرقی پنجاب کے درمیان حد بندی کے تمام معاملات

اپریل 1960 تک مکمل طور پر حل کر لیے جائیں گے۔دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات بیک وقت راولپنڈی اور نئی دلی سے جاری کی گئیں۔ (معاہدے کی یہ دستاویز اب انٹرنیٹ پر بھی دونوں ملکوں کی طرف سے علیحدہ علیحدہ دستیاب ہے۔)پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ تھا جس پر 17 جنوری 1961 کو مکمل طور پر عمل درآمد ہو گیا۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا نے 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے اور پاکستان نے 35 ہزار ایکڑ رقبہ انڈیا کے حوالے کر دیا۔دونوں ملکوں کے درمیان علاقوں کا یہ تبادلہ 340 میل طویل سرحد پر ہوا۔ اس تبادلے کے تحت پاکستان حسینی والا ہیڈ ورکس سے ایک میل پیچھے ہٹ گیا۔ اس طرح اس ہیڈ ورکس کا کنٹرول مکمل طور پر انڈیا کو حاصل ہو گیا۔اس انتظامی تقسیم کی وجہ انگریز عہد میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے ذریعے شہرت پانے والے کامریڈ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی سمادھی بھی انڈیا کی طرف چلی گئی۔23 مارچ 1931 کو پھانسی دینے کے بعد فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے ان کی لاشوں کو جلا کر یہیں ان کی سمادھی بنا دی گئی تھی۔ اس طرح اراضی کے تبادلے کے معاہدے کے تحت یہ تاریخی مقام انڈیا کو منتقل ہو گیا۔حسینی والا ہیڈ ورکس کے مقابلے میں انڈیا دریائے ستلج پر بھی سلیمانکی ہیڈ ورکس کے علاقے سے 14 میل پیچھے ہٹ گیا۔ اس طرح ہیڈ ورکس کے علاوہ چسٹر پل کا علاقہ بھی پاکستان کو مل گیا۔اخبار نے لکھا کہ یہ پل

دفاعی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ سرحدی تبادلے کے تحت پاکستان نے ایک مکمل گاؤں اور 32 دیہات کے کچھ حصے انڈیا کے حوالے کیے۔ اس کے مقابلے میں چار مکمل گاؤں اور 34 دیہات کے کچھ حصے پاکستان کو منتقل کیے گئے۔انتقال اراضی کے نتیجے میں 1693 خاندان متاثر ہوئے۔ ان خاندانوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ دونوں ملکوں میں سے جس ملک میں چاہیں، رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔انتقال اراضی مکمل ہو جانے کے انڈین وفد کے سربراہ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ’سرحدی علاقوں کے خوش اسلوبی کے ساتھ تبادلے سے دونوں ملکوں کے تعلقات اور مضبوط ہوں گے۔ اراضی کی منتقلی کا کام بڑی اچھی طرح اور دوستانہ طریقے سے طے پایا۔ اس منقتلی سے دونوں ملکوں کے سرحدی جھگڑے طے ہو گئے۔ اب ہم اپنے اپنے علاقوں کو جاننے لگے ہیں اور اب ہم پرامن ہمسائیوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔‘اس سے قبل معاہدے پر رسمی عملدرآمد کے لیے انڈیا سے سردار گیان سنگھ کاہلوں واہگہ کی سرحد پر پہنچے۔ پاکستان پہنچنے پر پاکستانی حکام نے ان کے وفد کا خیر مقدم کیا۔کچھ دیر بعد پاکستانی وفد پیر احسن الدین کی قیادت میں انڈین علاقے میں داخل ہوا۔ انڈین حکام نے بھی پاکستانی وفد کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ دونوں وفود سرحد پر بنائے گئے کنڑول رومز میں داخل ہوئے جہاں وائر لیس کے ذریعے اطلاعات پہنچ رہی تھیں کہ معاہدے کے تحت خالی کیے جانے والے علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوج ان علاقوں کی کمان سنبھال رہی ہے۔(بشکریہ بی بی سی)

READ MORE ARTICLES……