اپنوں نے ہی لنکا ڈھا دی!!!! ان ہاؤس تبدیلی کی آوازیں، عمران خان کی جگہ وزیراعظم کا امیدوار کون ہوگا ؟ نام سن کر آپ دنگ رہ جائیں – Qahani.com

اپنوں نے ہی لنکا ڈھا دی—!! ان ہاؤس تبدیلی کی آوازیں، عمران خان کی جگہ وزیراعظم کا امیدوار کون ہوگا ؟ نام سن کر آپ دنگ رہ جائیں –

 

Android App iOS App

حامد ولید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” لوگ نکلیں گے توحکومت ختم ہوگی، یہ اور بات کہ حکومت کوباہرسے نہیں بلکہ اندرسے ختم کیاجائے گا۔ یعنی تحریک عدم اعتماد کی طرف بڑھا جائے گااور کوشش ہوگی

کہ یہ پارلیمنٹ اسی طرح اپنی آئینی مدت پوری کرے جس طرح نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجودشاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں اسمبلی نے مدت پوری کی تھی۔

چنانچہ وہ تجزیہ کار جو یہ دلیل سامنے رکھتے ہیں کہ عمران خان کے 126دن کے دھرنے کے باوجود نون لیگ کی حکومت ختم نہیں ہو سکی تھی انہیں بات کرتے ہوئے احساس رہنا چاہئے کہ نون لیگ کی ختم ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، نواز شریف کی حکومت ضرور ختم ہو گئی تھی اور تین بار

منتخب وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ اس آفس میں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پائے تھے۔ چنانچہ اگر نوازشریف کے خاتمے کا مطلب نون لیگ کی حکومت کا خاتمہ نہیں تھا تو عمران خان کے خاتمے کا مطلب کیونکر ایسا ہوسکتا ہے۔

اسی لئے تو شاہ محمود قریشی اپنا سی وی لئے تقریر پر تقریر جھاڑتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ یہ توطے ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے ساتھ لوگ ضرورنکلیں گے۔بلاول بھٹونے 27فروری سے مزار قائدسے اپنا اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ شروع کرناہے۔

قوی امید ہے کہ وہ ٹرین کے ذریعے پورا نہیں تو آدھا لانگ مارچ تو ضرور کریں گے اور عین ممکن ہے کہ رحیم یار خان سے بذریعہ سڑک جنوبی پنجاب کا چکر لگاتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں۔ سندھ کے علاوہ جنوبی پنجاب میں اب بھی پیپلزپارٹی کے ووٹروں سپورٹروں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے

جسے بلاول بھٹو کو اپنے لانگ مارچ کے دوران جگانے اور ساتھ اسلام آباد لے جانے کی بھرپور سعی کرنی چاہئے۔ اسی طرح اٹک، جہلم اور ان سے ملحقہ دیگر علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت موثر طریقے سے قائم ہے اور پھر اس سے آگے کے پی میں بھی ایسے حلقے موجود ہیں۔

جہاں سے اسے کارکنوں اور پارٹی سپورٹروں کی ایک ایسی بڑی تعداد میسر آسکتی ہے جو اسلام آباد میں اس کے لانگ مارچ کے پڑاؤکو چار چاند لگادے۔ چنانچہ اگر ان سب کو اکٹھا کرکے بلاول بھٹو مارچ کے دوسرے ہفتے بھی اسلام آباد پہنچ کر چند روز وہاں قیام کے دوران حکومت کے خلاف دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو وہ پی

ڈی ایم کے لانگ مارچ کے لئے ایک اچھا خاصا ابتدائیہ تحریرکرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو نو ن لیگ کا سنٹرل پنجاب میں ایک اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے اور ان علاقوں کے الیکٹ ایبلز کی ایک بڑی تعداد اپنے ہمراہ پارٹی کارکنوں کی متاثر کن تعداد لے کر اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نون لیگ کی قیادت مریم نواز کریں گی یا شہباز شریف کریں گے کیونکہ نواز شریف کی فوری واپسی کا تو دور دور تک امکان نظر نہیں آتاہے۔ہاں البتہ وہ آن لائن خطابات کے ذریعے شرکائے لانگ مارچ کا لہوضرور گرما سکتے ہیں۔ چنانچہ سنٹرل پنجاب سے نون لیگ اورخیبر پختونخوا سے مولانابلاول بھٹو کے بعد اگر اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد لے کر اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں توشیخ رشید کے پاس صرف ڈی چوک کی صفائی کا ہی وقت بچے گا اور یوں موسم سرما کے اترتے ہی ملک بھر میں چار سو سیاسی سرگرمیوں کی بہار نظر آئے گی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ایک عام پاکستانی ملک میں ہونے والی ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوں بری طرح سے تنگ ہے جس کا اظہار اس نے ستمبر میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے اور دسمبر میں کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کھل کر کیا تھا اور اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی اس وقت برسراقتدار جماعت ہے اور ہر طرح سے اپنے حامیوں کو نوازنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں اور خیبر پختونخوا کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ پی ٹی آئی ان ہر دو جگہوں پر راج کرتی ہے اور یہاں کے مکین عمومی طور پر عمران خان کی شخصیت کے سحرکے اسیر ہیں مگر پھر انہی علاقوں کے عوام نے بلدیاتی سطح کے انتخابات میں بھرپور طریقے سے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پی ٹی آئی سے زیادہ ٹی ایل پی کے کیمپ میں زیادہ رش تھا، نون لیگ کی تو بات ہی الگ تھی جبکہ راقم خود اس منظر کاچشم دید گواہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اپنی قناتوں کے اوپر سے جھانک جھانک کر ووٹروں کے آنے اور پرچی کٹوانے کی راہ دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ ان دو انتخابی مرحلوں میں اگر پی ٹی آئی کے حامیوں نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ ڈال کر ملک میں ہونے والی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہارکیا ہے تو پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم جماعتوں کے حامی اپنے اپنے لانگ مارچوں میں حکومت کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے لئے باہر کیوں نہیں نکلیں گے؟ حکومتی حلقوں کے پیش نظر یہ حقیقت رہنی چاہئے کہ پیپلزپارٹی پہلے ہی ٹریکٹر ٹرالی مارچوں کے ذریعے ملک بھر میں سڑکوں کوگرم کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی ہے، اسی طرح بلاول بھٹو سندھ میں احتجاجی جلسوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ ایک دو ہفتوں بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں بھی اپنے اپنے سٹرانگ ایریاز میں عوام کو موبلائز رکرنے کے لئے کمر کس لیں گی جس سے پہلے گیلپ یہ سروے کہ 25فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے کوروناکب کا ختم ہو چکاہے اس لئے قوی امکان ہے کہ اس مرتبہ لانگ مارچ سے قبل حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤنوں کا حربہ نہیں چلے گااور عوام جوق در جوق اسلام آبادپہنچیں گے، تاکہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے اپنے نمائندگان کوحرکت میں آنے پر مجبور کرسکیں اور ملک کی ایک نااہل، غیر سنجیدہ اور سلیکٹڈ ٹولے سے جان چھڑوائیں۔ ہم دیکھیں گے وہ دن کا جس کا وعدہ ہے!۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں