تیس سال بعد کنواں سے مزدور نکلا – Nation 92 News

تیس سال بعد,,, کنواں سے مزدور نکلا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چند دن پہلے رات کے دس بجے روڈ پر چلتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ،پنکچر والے کے پاس پہلے سے ایک گاہگ موجود تھا . میں اس دوران گاڑی سے اتر کر باہر کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔ پنکچر کی دوکان کا بوڑھا مالک وہاں پہلے سے بیٹھا حقہ پی رہا تھا .حقہ دیکھتے ہی میری طبیعت بے چین ہوئی۔

اور بے تکلفی سے کہا بزرگوں اگر اجازت ہو تو میں بھی دو ، تین سٹے لگا لوں وہ ہنس کر بولا ” ست بسم اللہ “ اس نے حقے کی نے مجھے تھمادی اور میں نے پہلا ہی کش لگایا تھا کھانسی کا دورہ پڑگیا. ” پتر جی حقہ پینا مردوں کا کام ہے,,,

،یہ کوئی سگریٹ نہیں ہے.حقے کے لئے پھیپھڑوں میں جان ہونی چاہئے “ اب کہا کی جان بابا جی “ میں نے کہا تو وہ میری بات سمجھ گیا. ” واقعی وہ پہلی کی دیسی خوراکیں اب کہاں “ .وہ کم از کم اسّی سال کے اوپر تھا .گھنی اور بھاری مونچھیں،سینہ چوڑا ،بدن کسرتی.تہبند پہنا ہوا تھا,

.وہ بار بار ایک لفظ بولتا” اللہ دی شاناں ویکھو“ لگتا تھا .یہ اس کا تکیہ کلام تھا .اس سے باتیں کرتے ہی وہ بابا اپنا زمانہ یاد کرنے لگے .دیسی لوگوں کی دیسی باتیں.باتوں ہی باتوں میں اسنے مجھے ایک حیران کن واقعہ سنادیا . دادا سرگودھا کے رہنے والے تھے

.میں اس وقت دس سال کا بچہ تھا ،سمجھ لو ستر سال پہلے کی بات ہے . رب دیاں شاناں ویکھو …. میرے دادے کی عمر اس وقت سو سال تھی جب اس نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا . اس علاقے کے چودریوں نے اپنی زمین پر ایک کنواں کھدوایا جس کے لئے مزدور باہر سے بلائے گئے جو کھیتوں میں کئی روز تک کنواں کھودتے رہے ۔

کنواں کافی گہرا ہوگیا اور پانی نکلنے کے قریب تھا کہ اچانک ایک روز کنویں کی ایک جانب سے مٹی کھسک کر کنویں میں گرگئی اور ایک مزدور اس میں دب گیا . باقیوں نے شور مچایا کہ ”منظور مٹی نیچے دب گیاہے“ مٹی نکال کر اس مزدور کو نکالنے کی کوشش کی گئی.

لیکن جب کافی کھدائی کے باوجود منظور نامی مزدور نہ ملا تو انہوں نے سوچا کہ شاید انہیں مغالطہ ہوگیا ہے ،وہ مزدور کہیں چلا نہ گیا ہو. یونہی زندگی کی گاڑی دوڑتی رہی . پچیس تیس سال بعد زمیندار فوت ہوا تو اسکی اولاد نے کافی ساری زمینیں بیچ ڈالیں.نئے لوگ آئے تو

انہوں نے اس زمین کو آباد کرنے کے لئے فصلیں کاشت کرنا شروع کردیں اور انہیں بھی ایک کنویں کی ضرورت پیش آئی .اتفاق سے انہوں نے جس جگہ کنواں کھودنا شروع کیا ،یہ وہی جگہ تھی جہاں پہلے کنواں کھودا جاچکا تھا اور یہ پرانا واقع ہو چکا تھا ,

.مزدور جب کافی گہرائی تک کنواں کھودچکے تواچانک انہیں دھوتی کا کپڑا ملا تو وہ حیران ہوئے کہ اس گہرائی میں یہ دھوتی کیسی؟ دوسرے مزدور بھی پریشان ہوئے،مالکان کو بلایا گیا کہ کھدائی کے دوران کنویں مرد کے کپڑے ملے ہیں .انہوں نے مزدوروں سے کہا کہ,

وہ احتیاط سے کھدائی کریں تاکہ دیکھا جائے کہ یہ دھوتی اگر کسی انسان کی تھی تو باقی چیزیں بھی اسکی ہیں یا نہیں۔مزدوروں نے کھدائی جاری رکھی تھوڑا نیچے جانے کے بعد دیکھا کہ تو کنویں کی ایک جانب اچانک چھوٹی سی کھوہ نمودار ہوئی جس میں ایک بابا جی لیٹے ہوئے تھے …..

.ان کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ وہ انسان زندہ تھا ،اسکی سفید داڑھی اسکی ناف تک بڑھی تھی اور سر کے بالوں سے چہرہ چھپا ہوا تھا . پہلے تو وہ سمجھے کہ یہ کوئی جن بھوت ہوگا لیکن مالکان نے اس کو چھویا اور اس کو ہاتھ لگایا اسکے بدن کا پورا گوشت نرم ہو چکا تھا …

. لیکن اگلے لمحہ وہ آدمی خود بے ہوش ہو گیا . خیر کسی طرح اسے کنویں سے باہر نکالا گیا . . اسکودس دن تک انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا،روئی پر دودھ لگا کر اسکو چٹایا جاتا رہا ،دس دن بعد جب وہ اپنے ہوش و حواس میں واپس آیا تو اس نے انکشاف کیا کہ اس جگہ کنواں کھودتے ہوئے مٹی کے تلے دب گیا تھا ,

.پرانے ایک بابا نے ا سکی تصدیق کی کہ ایسا واقعہ ہوا تھا اور منظور حسین نامی ایک مزدور لاپتہ ہوگیا تھالیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پینتیس سال تک مٹی تلے دباہوا انسان زندہ رہ سکتا ہے.زندہ رہنے کے ہوا پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے.یہ بڑا حقیقت پسندانہ سوال تھا.

.اس شخص نے سنا تو کہا”میں ہی منظور حسین ہوں .بس یہ میرے سوہنے اللہ کی شان ہے کہ وہ پتھروں میں بھی رزق پہنچادیتا ہے.مجھے نہیں معلوم میں کتنے سالوں تک منوں مٹی تلے دفن رہا ہوں .لیکن مجھے ایک بات کا علم ہے کہ میں کبھی بھوکا پیاسا نہیں رہا نہ مجھے وقت گزرنے کا علم ہے

.میں روزانہ دیکھتا تھا کہ ایک گائے صبح سویرے آتی ہے اور اپنے تھن میرے سامنے کرتی ہے ،میں اسکے تھنوں کو منہ لگا کر دودھ پی لیتا تھا.وہ دن میں ایک بار ہی آتی تھی.میں اللہ کا شکر ادا کرتا تھا اور آج اس سوہنے نے مجھے پھر اس دنیا میں پہنچا دیا ہے۔“

READ MORE……

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں