’’ جنرل فیض خود آئی ایس آئی میں نہیں رہنا چاہتے۔۔‘‘ مریم نواز اور نواز شریف کی نئی سیاسی حکمت عملی کیا ہے؟ انصار عباسی کے تہلکہ خیز انکشافات –

’’ جنرل فیض خود آئی ایس آئی میں نہیں رہنا چاہتے۔۔‘‘ مریم نواز اور نواز شریف کی نئی سیاسی حکمت عملی کیا ہے—؟ انصار عباسی کے تہلکہ خیز انکشافات –

لاہور(نیوز ڈیسک) مسلم لیگ نے اپنی حکمت عملی میں واضح تبدیلی کر لی ہے۔ اس حوالے سے سینئیر صحافی و کالم نگار انصار عباسی نے اپنے حالیہ کالم میں بتایا اور کہا —–کہ مسلم لیگ ن کی اس حکمت عملی کے مطابق باقی سب تو خاموش ہیں

لیکن مریم نواز کی طرف سے موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو کھلے عالم نشانہ بنایا جارہا ہے ، اب اسٹیبلشمنٹ کے کسی دوسرے
فرد کا نام بھی نہیں لیا جا رہا بلکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ذریعے نااہلی، وزارت عظمی سے نکالے جانے،

پاناما کیس اور اس کے نتیجے میں عدلیہ کی طرف سے میاں صاحب اور مریم کو دی جانے والی سزائوں اور پھر الیکشن سے پہلے مبینہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہر چیز کا ذمہ دار صرف ایک ہی شخص کو ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا وہ بار بار نام بھی لے رہی ہیں اور ایک نیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے

کہ یہی فرد عمران خان کو لانے اور تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔انصار عباسی نے کہا کہ ہفتے کی رات کو فیصل آباد میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں ایک بار پھر مریم نواز نے ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے نشانہ پر رکھا ۔ اسی جلسہ میں اسٹیج پر سے جنرل فیض استعفی دو کے نعرے بھی لگوائے گئے

اور پھر آج اس مطالبہ کو ن لیگ کے سوشل میڈیا نے ٹاپ ٹویٹر ٹرینڈز میں شامل کر لیا۔ انصار عباسی نے کہا کہ دونوں باپ بیٹی کے متعلق دفاعی ادارے میں انتہائی منفی تاثر زور پکڑ گیا۔اگرچہ نواز شریف اور مریم نواز کی اس پالیسی

سے ن لیگ کے کئی رہنما بشمول شہاز شریف متفق نہ تھے لیکن ذرائع کے مطابق نواز شریف نے بھی یہ محسوس کیا کہ فوجی قیادت کے دو انتہائی اہم افسران کا نام لے لے کر اُنہیں نشانہ بنانے کی پالیسی کا شاید پارٹی کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو۔

شاید اسی وجہ سے اب ایک نیا بیانیہ بنایا جارہا ہے جس کا نشانہ صرف اور صرف جنرل فیض ہیں جو کہ عمران خان کے ممکنہ آئندہ سال تعینات ہونے والے نئے آرمی چیف ہو سکتے ہیں۔اس نئے بیانیہ کا واضح مقصد یہ ہے کہ جنرل فیض کو اتنا متنازعہ بنا دو اور باربار عوامی سطح پر اُن کے خلاف بات کرو

کہ اُن کا اگلا آرمی چیف بننے کا
چانس ہی باقی نہ رہے۔ ن لیگ کو اس بات کا علم ہے کہ جنرل فیض پر جو جو الزمات لگائے وہ اُس وقت کے ہیں جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں بلکہ سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔ یعنی اُن پر جو جو کچھ غلط کرنے کا الزام ہے اگر وہ سب اُنہوں نے کیا تو آیا خود سے کیا یا کسی کے حکم پر کیا؟ اگلے سال نومبر میں

موجودہ آرمی چیف اپنی ایکسٹینشن کے تین سال پورے کر لیں گے۔اُس وقت تک کیا ہوتا ہے اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہو گا کیوں کہ یہاں تو دنوں میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ انصار عباسی کے مطابق مسلم لیگ ن کے نئے بنائے جانے والے بیانیہ کو وزیراعظم عمران خان

کی طرف سے فوج میں حالیہ تبدیلیوں کے نوٹیفیکیشن روکنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے تقویت ملی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت کے اپنے نمائندوں نے ٹی وی چینلز پر آ کراور کہہ کر پوری کر دی کہ عمران خان جنرل فیض کو ابھی آئی ایس آئی سے کہیں اور بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے۔اپوزیشن خصوصاً ن لیگ

اور مریم نواز نے اس بات کو بھی خوب اچھالا جس سے ایک تو عمران خان پر تنقید کی کہ وہ فوج کے ادارے کو سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا جنرل فیض کو نہ ہٹانے کی بات کو سیاست سے جوڑا۔ انصار عباسی نے مزید کہا کہ یہ بات سامنے آ چکی اور میری بھی یہ اطلاعات ہیں کہ جنرل فیض خود بھی آئی ایس آئی میں مزید نہیں رہنا چاہتے

اور آئی ایس پی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق جلد از جلد پشاور کور کو سنبھالنا چاہتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جنہوں نے نوٹیفیکیشن روک کر ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا اور اپنے اور فوج کے درمیان ایک کھنچائوکی صورتحال پیدا کر دی، آئندہ بدھ کو یعنی دو دن کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے۔

READ MORE INTERESTING ARTICLES BELOW

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں